ہم سب کو ڈرنا چاہئے، پر ہم ڈرتے نہیں۔۔!
ساجد ٹکر
خاص دودھ، خاص شہد، خالص چائے، خالص دہی، تازہ پھل، تازہ سبزیاں، تازہ گوشت، بہترین مکینک، تسلی بخش کام، بازار سے بارعایت، ملاوٹ سے پاک، خوشبودار، انصاف جنرل سٹور اور ان جیسے بے شمار نعرے ہیں جو کہ ہر شہر، ہر بازار اور ہر دکان کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی دعوی کر رہا ہے کہ اس کا مال خالص، تازہ اور نرخ میں دوسروں سے کم ہے۔
لیکن اس کے برعکس چائے سے مصالحہ تک، دودھ سے شہد تک، چاول سے آٹا تک اور گوشت سے قیمہ تک، کوئی بھی ایسی چیز۔ خالص نہیں ملتی۔ اگر سب کچھ خالص ہوتا تو پھر اپنی دکانوں پر خالص کا ‘ٹیکہ’ لگانے کی ضرورت کیا تھی؟
یہ خالص ہونے کا دعوی ہی دراصل اس بات کا غمازی ہے کہ اس بازار میں ملاوٹی اشیاء بک رہی ہیں۔ آپ اخبار اٹھا کر دیکھ لیجئے تو آپ دنگ رہ جائیں گے۔ کبھی مردہ مرغیوں سے بھرے ٹرک پکڑے جاتے ہیں تو کبھی چھوٹے گوشت کے نام پر گدھے اور کتے کا گوشت بک رہا ہوتا ہے۔ کبھی کیمیکل ملا دودھ تلف کیا جا رہا ہوتا ہے تو کبھی کبھار دو نمبر بلکہ آٹھ اور دس نمبر مشروبات کے کھیپ دھر لئے جاتے ہیں۔
عام سی باتیں ہیں۔ چائے میں ملاوٹ ہو رہی ہے اور مصالحوں میں بھی طرح طرح کی اشیاء مکس کی جاتی ہیں۔ اب تو آٹا بھی خالص نہیں رہا۔ مجھے میرا ایک دوست بتا رہا تھا کہ آٹے میں سفید چھوٹا چاول مکس کیا جاتا ہے۔ اب اگر آٹے کا یہ حال ہے تو باقی چیزوں کا حال کوئی کیا پوچھے۔
اسلام میں ملاوٹ سے سختی سے منع کیا گیا ہے بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ "جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔” ہم خدا کے فضل و کرم سے مسلمان ہیں لیکن اعمال ہمارے دیکھ کر شائد یہود و ہنود بھی شرما جائیں۔ ہمارا معاشرہ حاجیوں، تبلیغیوں، پیروں اور مریدوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ایک حاجی، مبلغ ہوتا ہے۔ کسی پیر کا مرید تو ہر دوسرے میں گھر میں موجود ہوتا ہے لیکن اعمال ہمارے ایسے کہ خود وہ اعمال بھی شرما جائیں۔
یہ بہت ہی عام سی باتیں ہیں اور دیکھنے یا سننے میں بہت معمولی معلوم ہوتی ہیں لیکن جو قوم خود کو، اپنے بھائی کو اور اپنے مسلمان بھائی کو دھوکہ دے سکتا ہے تو اس سے بھلائی کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
آپ بازار فروٹ خریدنے چلے جائیں تو دھوکہ، سبزی میں دھوکہ، دودھ میں دھوکہ، شہد میں دھوکہ، دہی میں دھوکہ، چائے میں دھوکہ، مصالحہ میں دھوکہ، ناپ تول میں دھوکہ، آپ بہت ہی خوش نصیب ہوں گے اگر آپ کوئی پھل خریدنے جائیں اور آپ کو سارے پھل ٹھیک مل جائیں۔ غضب تو یہ ہے کہ دوائیوں میں بھی دو نمبر دوائیاں بک رہی ہیں جو کہ براہ راست انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
ہم سب ماشاءاللہ پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں، رمضان کے مہینے میں روزوں کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں لیکن اسی رمضان کے مہینے کے لئے ذخیرہ اندوزی بھی کرتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کسے دھوکہ دے رہے ہیں؟ ہمارے مساجد نمازیوں سے بھرے رہتے ہیں لیکن دکان پر ملاوٹ کے بغیر چائے تک نہیں ملتی۔ دوران سفر بسوں میں، گاڑیوں میں ہر دوسرا تیسرا بندہ اپنے موبائل پر دینی باتیں سن رہا ہوتا ہے لیکن دودھ میں پانی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ حاجیوں کی تعداد سال بہ سال بڑھ رہی ہے لیکن شہد کا معیار نیچے آ رہا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم بس گفتار کے غازی بن رہے ہیں اور فعل و عمل کی دنیا کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
حکومت کا بھی اس ضمن میں بہت کردار بنتا ہے کہ چیزوں کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ اس کی کوالٹی کو بھی یقینی بنائے لیکن یہ کام ہم صرف حکومت پر نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ حکومتی کام ایک طرف سست ہوتے ہیں تو دوسری جانب حکومتوں کی اپنی ترجیحات بھی ہوتی ہیں اور لگتا یہ ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنا یا کوالٹی چیک رکھنا حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ حکومت سے گلہ بعد میں لیکن دودھ میں پانی ملانے سے روکنے کے لئے کیا ہمارے سر پر سپاہی کو کھڑا ہونا پڑے گا۔ کیا ہم خود سوچ نہیں سکتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
انسان کو اللہ تعالی نے آنکھیں، ذہن، شعور او عقل دیئے ہی اس لئے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھلائی کے لئے بھی کچھے سوچے، کچھ کرے۔ لیکن ہم دوسروں کی تو کیا خود اپنا برا کر رہے ہیں کیونکہ ہم اپنی تھوڑی سی خوشی اور قلیل المدتی فائدے کے لئے وہ بھیانک کام کر رہے ہیں جس کا مہذب معاشروں میں تصور ہی محال ہوتا ہے۔
ہم امریکہ اور مغربی دنیا کو دن رات برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ وہ لوگ اپنے انسانوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ وہاں دو نمبر چیز کو لوگ جانتے تک نہیں۔ وہ چین جو دنیا میں سستی چیزوں کے لئے مشہور ہے، وہ بھی جب ان ممالک کے لئے مصنوعات بناتا ہے تو اعلی کوالٹی کے بناتا ہے۔
میرا ایک دوست امریکہ میں مقیم ہے۔ ایک دن مجھے بتا رہا تھا کہ وہاں کے لوگ جھوٹ سے بالکل بھی آشنا نہیں ہیں۔ میں نے تعجب کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ جھوٹ کو بہت ہی معیوب عمل تصور کیا جاتا ہے کیونکہ جھوٹ ایک دھوکہ ہے۔ اس نے کہا کہ اگر تم یہاں آؤ او کسی کو کہو کہ میں پاکستان کے کسی صوبے کے گورنر کا بیٹا ہوں تو وہ بلاجھجک مان جائیں گے کیونکہ ان کی تربیت ایسی ہوئی ہوتی ہے، کوئی بندہ جھوٹ بولے ہی کیوں۔
میرا یہی دوست کہہ رہا تھا کہ کسی سٹور یا دکان میں یہاں اگر کسی چیز کی تاریخ پرانی ہو جائے تو اس کو خودبخود نکال کر پھینک دیتے ہیں۔ میں نے دوست سے پوچھا کہ کیا وہاں غذائی اشیاء جیسے کہ دودھ، شہد، مکھن، دہی، گوشت وغیرہ میں ملاوٹ ہوتی ہے تو اس نے ہنس کر جواب دیا کہ ملاوٹ ان لوگوں کے لئے ابھی کوئی ناآشنا اور نئی بات ہے کیونکہ یہ لوگ ملاوٹ کو جانتے تک نہیں کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔
میرا ایک دوسرا دوست ہے جو کہ یہاں اپنے ملک میں رہتا ہے اور بہت زیادہ حساس بلکہ کسی حد تک شکی مزاج بھی ہے۔ وہ جب اخبار میں ملاوٹ یا اس طرح کی کوئی خبر دیکھ لیتا ہے تو جھٹ سے مجھے کال کر کے کہتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ مجھے ہنسی آ جاتی ہے کہ ہم کوئی یورپ یا امریکہ میں تو نہیں رہ رہے کہ ان چیزوں پر حیرانی کا اظہار کریں۔
کل کلاں مجھے میرا یہی دوست بتا رہا تھا کہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے اور میں مزید یہاں نہیں رہ سکتا۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ بھائی جان ہر چیز میں ملاوٹ ہے، کوئی بھی چیز خالص نہیں رہی، یہ تو موت کو دعوت دینا ہے۔ میں نے کہا بس اسی طرح جینا سیکھ لو کیونکہ ہم بدلنے والے نہیں کیونکہ بدلتے وہ ہیں جو کہ خود کو بدل لیتے ہیں اور جو لوگ اوروں کو بدلنا چاہیں وہ کبھی بھی نہیں بدلتے۔
دنیا اتنی بری نہیں ہے، مال و دولت بنانا بھی حرام نہیں ہے، مالدار ہونے کی تمنا رکھنا بھی کوئی گناہ نہیں لیکن یہ سب تبھی اچھا لگتا ہے جب یہ سب چیزیں اپنے زور بازو اور قابلیت پر ہوں نہ کہ کسی کو دھوکہ دینے کی بنیاد پر۔ جو ترقی انسان دوسروں کی بربادی سے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ ترقی نہیں بلکہ انتہا درجے کی تنزلی ہوتی ہے۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ تنزلی کی دلدل سے نکلیں تو ہمیں اپنا احتساب کرنا ہو گا، اپنے گریباں میں جھانک کر اپنا حساب کتاب کرنا ہو گا۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہو گا کہ جو ہم کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے یا غلط، جائز ہے یا ناجائز، حلال ہے یا حرام؟
اگر ہم ان سوالوں کے سامنے سرخرو ہو سکیں تو پھر ہمیں اس شکوے کا موقع ہی نہیں ملے گا کہ وقت کے حکمران برے لوگ ہیں۔