"میں نے مٹی بھی جمع کی کھلونے بھی لے کر دیکھے زندگی پھر نہیں مسکرائی بچپن کی طرح”
مہرین خالد
جب آسمان پر بادل چھا جاتے اور بارش کی بوندیں برسنے کے لیے تیار ہوتیں تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا، یوں لگتا جیسے بارش کا ہر ایک قطرہ ہماری خوشی کے لیے خود کو قربان کر کے زمین پر گرتا ہے اور کہیں پہ جمع ہو کر ہماری کاغذی کشتیوں کا انتظار کر رہا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے محلے میں ایک ضعیف آدمی تھے جسے ہم پیار سے ڈاڈا کہتے تھے، وہ ہر روز باہر کرسی پر بیٹھ کر ہمارے کھیل سے لطف اندوز ہوتے تھے اور اگر کھبی ہم بچے آپس میں لڑ پڑتے تو ہماری رہنمائی کر کے صلح کرواتے اور کہتے کہ لوگوں کے درمیان صلح کروانے سے الله خوش ہوتا ہے۔
یہ بات سن 2006 کی ہے جب میں چھ سال کی تھی۔ اس محبت اور اتفاق کی مثال مجھے کہیں نہیں ملی۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب دس روپے کی بال کے لیے پورے محلے کے بچے ایک، ایک روپیہ اکٹھا کر کے بال خریدتے اور کھیلتے۔ جب پٹھوگرم کھیلتے تو اس بندے کو بڑے عزت اور احترام سے مارا جاتا جس کی گیند ہوتی، کیونکہ ہر بچے کے پاس وہ گیند کہاں ہوتی تھی۔
وہ آواز آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے جب کڑکتی دھوپ میں قلفی والا صدا لگاتا اور ہم گھر سے بھاگتے ہوئے نکلتے قلفی خریدنے کے لیے۔
وہ کھیل جو ہم میں محبت اور خلوص پیدا کرتے، جو ہمیں سکھاتے کہ کہاں جھکنا ہے اور کہاں سر اٹھانا ہے۔
آج ان کھیلوں کا وجود ختم ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جب میں یونیورسٹی سے آتی ہوں اور ان گلی کوچوں کو دیکھتی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ گلیاں اور محلے چیخ چیخ کر ان بچوں کو پکار رہے ہیں جو کبھی ان گلی محلوں کی رونق ہوا کرتے تھے۔
وہ ہنسی سے گونجتی ہوئی آوازیں اب سنائی نہیں دیتیں۔ اور اگر سنائی دیتی بھی ہیں تو کہیں زیادتی کی کہیں ظلم کی کہیں دہشت کی تو کہیں خون کی، جو ان بچوں کی معصومیت کا گلا گھونٹتے ہیں۔ یہ ظالم نہ صرف بچوں کے قاتل ہیں بلکہ ان کے بچپن اور ان کے کھیلوں کے بھی قاتل ہیں۔ کھیلنے سے انجان بچے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
اسی طرح موبائل فون نے بھی ان کھیلوں کی جگہ لے لی ہے، جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ان کھیلوں کی جگہ موبائل گیمز لیتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی حرکات و سکنات اور سوچ محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر یہ حال یونہی چلتا رہا تو یہ کھیل اپنا وجود کھو دیں گے اور اس کی مثالیں صرف ہمیں اردو ادب کی کتابوں میں ملیں گی۔