میانوالی: ”ابا۔۔ ! مجھ سے جینے کا حق کیوں چھینا؟”
انیلا نایاب
ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ہاں ہزاروں سال پہلے کی جہالت کا دستور آج بھی چلا آ رہا ہے بس صرف شکل دوسری اختیار کر لی ہے۔ پہلے زمانے میں بیٹی کو زندہ در گور کیا جاتا تھا جبکہ آج نفرت کا طریقہ مختلف ہے۔
دور جہالت کی طرح آج بھی بیٹے کی ولادت پر خوشی اور بیٹی کی ولادت کو نحوست سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ تو سنا بھی تھا اور دیکھا بھی تھا کہ لڑکی کی پیدائش پر غم کا اظہار کیا جاتا ہے، نا ہی اچھا نام رکھا جاتا ہے نا ہی اس کا عقیقہ کروایا جاتا ہے اور نا ہی اس کا ویسے خیال رکھا جاتا ہے جس طرح سے ایک بیٹے کا رکھا جاتا ہے۔
بیٹے اور بیٹی کی تعلیم میں بھی فرق ہوتا ہے۔ بیٹے کا نکاح اس کی مرضی سے لیکن بیٹی کا اس کی رضامندی کے بغیر پڑھا دیا جاتا ہے، وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا لیکن پیدائش پر اس سے جینے کا حق بھی چھین لیا جائے، یہ پہلی بار دیکھا۔
حال ہی میں میانوالی میں ایک واقعہ پیش آیا ہے، ایک باپ نے اپنی پہلی اولاد، اپنی سگی بیٹی کو پیدا ہونے پر پانچ فائر کر کے قتل کر دیا۔
یہ بات تو ذہن نہیں مانتا کہ کوئی اپنی اولاد کو کیسے قتل کر سکتا ہے، وہ بھی اپنی پہلی اولاد کو؟ چوتھی یا پانچویں بیٹی ہو تب بھی کوئی ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس بچی کا قصور کیا تھا؟ اس نے اپنے آپ کو خود بنا کے پیدا کیا تھا، گولی چلاتے ہوئے اس باپ کے ہاتھ ذرہ سے بھی نہیں کانپے؟
اس 7 دن کی بچی نے تو اپنی والدہ کی آغوش کی گرمی بھی پوری طرح محسوس نہیں کی تھی۔ اس کا کیا قصور، وہ تو اللہ تعالی کی مرضی سے اس بدبخت کے آنگن میں پیدا ہوئی تھی۔
لیکن ایک بات اور بھی ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ سے نفرت یا جہالت لے کے پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ پیدائشی عالم ہوتا ہے بلکہ ہمارا معاشرہ اور ہمارا ماحول ہی نفرت کرنا سکھاتا ہے۔ مرد بھی جب اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو بزرگوں سے بیٹی کے لیے حقارت اور نفرت کے بیج اس کے ذہن میں بھی بوئے جاتے ہیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ نفرت تناور درخت بن جاتی ہے۔
بیٹی اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور رحمت کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا، بیٹی تو ماں باپ کے لیے جنت کا سرٹیفیکیٹ ہے، بیٹے میں ایسی کون سی خوبی ہے جو بیٹی میں نہیں ہے؟ بیٹی اللہ کی عظیم رحمت ہے، جس کے پاس یہ نہیں ہوتی زندگی کی رونقیں مسکراہٹیں اس کے لیے بے رنگ ہوتی ہیں۔
اس ظالم باپ کو بھی کسی عورت نے ہی جنا ہے اور اس نے بھی ایک لڑکی سے شادی کی ہے، اگر لڑکی اتنی ناپسندیدہ ہے تو پھر شادی کیوں ایک لڑکی سے کی؟
8 مارچ کو جو ادارے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں کچھ نا سمجھ لوگوں کا ان کے بارے میں رد عمل کافی سخت ہے کہ عورتیں مردوں کی برابری چاہتی ہیں، وہ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہونا چاہتی ہیں جو کہ بے حیائی ہے، عورتوں کی اپنے حقوق کیلئے آواز کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔
حالانکہ عورت بے حیائی کے لئے نہیں جینے کے لیے اپنا حق مانگ رہی ہے۔ خود بھی جیو اور عورت ذات کو بھی جینے دو، تم کون ہوتے ہو زندگی کا حق چھیننے والے کیونکہ یہ حق تو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس ہے۔
خواتین خود سر یا بے حیائی کے لئے جدوجہد نہیں کر رہیں بلکہ اس قسم کے ظلم سے آئندہ آنے والی نسل کو بچانا چاہتی ہیں۔ تنقید کی بجائے ان کا ساتھ دیں۔