کیا آپ جانتے ہیں کلاشنکوف ماما کا تعلق پشتونوں کے کون سے قبیلے سے ہے؟
عائشہ یوسفزئی
اگرچہ نئی نسل کو تو علم نہ ہو گا لیکن نوے کی دہائی کی نسل کو ”نام خطرناک پر کام ہر دلعزیز” کے بارے میں ضرور جانکاری حاصل ہو گی۔ آج ہم آپ کو ایک ایسے فرد کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جن کا کردار لوگوں کے دلوں کو چھونے والا اور چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والا مگر ان کا نام انتہائی خطرناک بلکہ خوفناک ہے۔ یہ اور کوئی نہیں بلکہ ہمارے پشتو ڈراموں کے جانے مانے مزاحیہ اداکار اور فلم پروڈیوسر رحیم شہزاد ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں رحیم شہزاد نے پہلی مرتبہ یہ انکشاف کیا کہ ان کا تعلق پشتونوں کے آفریدی قبیلے حسن خیل سے ہے جبکہ وہ نوشہرہ ضلع کے رہائشی ہیں، ”میٹرک کرنے کے بعد ہی تعلیم کو خیرباد کہہ دیا صرف اس لئے کہ مسقبل میں ایک باصلاحیت اداکار کے طور جانا جا سکوں، اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے نوے کی دہائی میں لاہور میں اپنی پہلی پشتو فلم سائن کی جو کہ ڈائریکٹر عزیز تبسم پروڈیوس کر رہے تھے جنہوں نے ”یوسف خان شیربانو” فلم بھی بنائی تھی، اس کے بعد مجھے کام ملنا شروع ہو گیا اور مرحومہ یاسمین خان، مسرت شاہین، وحیدہ خان کیساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔”
انہوں نے بتایا کہ فلم نگری سے ڈراموں کی طرف آنا کچھ یوں ہوا کہ جب پشتو فلموں میں نازیبا مکالمہ اور سین شوٹ ہونے لگے تو پھر سال انیس سو ستانوے میں پی ٹی وی پروڈکشن میں کام کرنا شروع کیا اور شوبز انڈسٹری میں ایک الگ پہچان بن گئی، اس میں میرا ایک ڈرامہ تھا سرگردان، جس میں میرے مزاحیے کردار کی مناسبت سے کلاشنکوف ماما کے نام سے پہچان بن گئی اور یہ ڈراما دیکھتے ہی دیکھتے عوام میں کافی مقبول ہو گیا اور آج بھی یہ ڈرامہ میرے کردار سے ہی جانا جاتا ہے اس کے باوجود بہت سے پروڈیوسرز نے مخالفت کی مگر سال دو ہزار میں ڈرامہ ڈائریکٹر عصمت شاہ نے ایک ڈرامے (روغ لیونی) میں مجھے اسماعیل شاہد کے سیکرٹری کا رول دیا جس پر افسوس بھی ہوا لیکن صرف یہ سوچ کر اس کردار کو نبھایا کہ لوگ کلاشنکوف ماما کو ایک نئے انداز میں دیکھیں، اس میں نجیبہ فیض میری ہیروئن تھی اور اس کردار کو میں نے ایسے ٹیمپو دیا کہ جس پر لوگوں نے خوب پسندیدگی کا اظہار کیا، پھر ہونا کیا تھا تین بار میرا نام بیسٹ ایکٹر کے لئے نامزد کیا گیا اور مجھے اس اعزاز سے نوازا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں رحیم شہزاد نے بتایا کہ آج کل تو بدر منیر جیسے ہیرو کو بھلا دیا گیا ہے، آج کے جو نوجوان ہیروز ہیں جن میں شاہد خان، جہانگیر خان، ببرک شاہ، ارباز خان شامل ہیں، ان سب کے ساتھ بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکا ہوں، ارباز خان اکثر شوٹنگ کے دوران مجھ سے میرے پرانے ساتھی اداکاروں کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں جس پر میں مسکرا کر کہتا ہوں کہ تم میری عمر کے بارے میں پوچھ رہے ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں ان فنکاروں میں شامل ہوں جن کو لوگ پسند کرتے ہیں، میں کئی بار متحدہ عرب امارات گیا ہوں، ایک بار یوں ہوا کہ میں ایک شو کے لئے ملائیشیا گیا تھا، جب شو شروع ہوا تو سٹیج پر میری انٹری باقی فنکاروں کے بعد کر دی گئی مگر مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جب سب سے آخر میں میرا نام لے کر مجھے پکارا گیا تو ایک شور سا اٹھا جسے میں اندر بیٹھا سن رہا تھا، دل میں ایک ہل چل سی محسوس ہوئی کہ جیسے یہ پورا گراؤنڈ میرا نام لے کر مجھے بلا رہا ہے اور یہاں موجود ہر کوئی بڑی بے تابی سے میرا انتظار کر رہا ہے، اس بے تابی کو ختم کرنے جب میں سٹیج پر گیا تو ایک ہجوم تھا جو امڈ آیا تھا جیسے ایک سیلاب، تالیوں کا یہی وہ لمحہ تھا جب میری آنکھوں سے خوشی کے مارے خود ہی آنسو بہنے لگے، لوگوں کا پیار تھا جو کہ میرے لئے قابل دید تھا۔
”ایک زمانہ وہ تھا ایک آج کا دور ہے، ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، نوجوان نسل جو بطور ایکٹر پہچان بنانا چاہتی ہو تو ان کے لئے میرا یہی مشورہ ہے کہ پرانے اداکاروں کی ایکٹنگ کو دیکھیں، ابھی بھی ایسے نئے چہرے سامنے آئے ہیں جن کو ہم سیٹ پر ریہرسل کرواتے ہیں۔” انہوں نے بتایا۔
آج کل کے فنکاروں کی حالت زار کے حوالے سے رحیم شہزاد نے کہا کہ حکومت ہمارے فنکاروں کی قدر نہیں کرتی، ان کے کام کو لفظوں کی حد تک سراہا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں لیجنڈ کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، نشتر ہال ہمارے لئے بنایا گیا تھا مگر اس میں ہمارے لئے شوز نہیں کئے جاتے بلکہ اگر دیکھا جائے تو ایک سیاسی آماجگاہ بن گیا ہے۔