تعلیمسیاست

یوکرین: کئی پاکستانی طالبعلموں نے رو رو کے اپنا برا حال کر دیا ہے

خالدہ نیاز

یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے تاہم یوکرین میں موجود پاکستانی طلباء اس وقت بھی شدید خوف میں مبتلا ہیں اور پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے تعاون نہ ملنے کا گلہ بھی کر رہے ہیں۔

ضلع صوابی یار حسین سے تعلق رکھنے والا عمیر بھی انہیں طالبعلموں میں سے ایک ہے جو اس وقت سومی سٹیٹ میں مقیم ہے جہاں 24 فروری کو ہی روس افواج نے قبضہ کر لیا تھا۔

میڈیکل کے طالبعلم عمیر کا کہنا ہے کہ پاکستانی سفارتخانے نے ان کے ساتھ کوئی مدد نہیں کی، یوکرین میں ہنگامی حالات ہیں، ”ہر دو گھنٹے بعد فائرنگ کی آواز آتی ہے، بم دھماکوں کی آواز بھی ہم نے خود سنی ہے لیکن کوئی ہمارا پوچھنے والا نہیں ہے۔”

پتہ نہیں اگلے لمحے کیا ہو گا؟

ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران عمیر نے بتایا کہ وہ سو سکتے ہیں نہ ہی کھا پی سکتے ہیں کیونکہ ہر وقت ایک ڈر سا لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں اگلے لمحے کیا ہو گا۔ عمیر نے بتایا کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے کیونکہ جب انہوں نے یہاں لوگوں سے مدد مانگی تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے سفارتخانے سے مدد مانگ لیں کیونکہ یہ علاقہ پہلے ہی سے روس کے قبضے میں ہے۔

خیال رہے روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا ہے جس میں ابھی تک 644 افراد جاں بحق جبکہ سینکڑوں افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں تاہم آج لڑائی کے پانچویں دن دونوں ملک مذاکرات کی میز پر آ گئے ہیں۔ یوکرینی صدر کے دفتر کے مطابق یوکرین فوری طور پر جنگ بندی اور روسی فوجیوں کی واپسی چاہتا ہے۔ جبکہ روس کے مذاکرات کار دلادیمیر میڈینسکی کے مطابق روس ایک ایسا معاہدہ چاہتا ہے جو دونوں ملکوں کے فائدے میں ہو۔

عمیر کے مطابق یہاں کئی طالبعلموں نے رو رو کے اپنا برا حال کر دیا ہے لیکن کوئی نہیں ہے جو ان کو خوراک دے سکے اور ان کو یہاں سے نکال سکے، ”گھر والے ہم سے مسلسل رابطے میں اور پریشان ہیں کہ کیا بنا، ان کو ہم تسلی تو دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ہے، سب ٹھیک ہے لیکن یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے، ہر لمحہ ڈر اور خوف میں گزر رہا ہے، گزشتہ رات بھی ہم نے بیٹھ کے گزاری ہے، ساری رات استغفار پڑھتے رہے اور لائٹس وغیرہ ساری بند کی تھیں کہ پتہ نہیں کس لمحے کوئی بم یہاں گرے گا یا پھر فائرنگ ہو گی۔’

حکومت ہمیں ایک محفوظ مقام تک تو پہنچا دے

عمیر نے بتایا کہ جس علاقے میں وہ رہائش پذیر ہے یہاں 15 کے قریب پاکستانی طلبہ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ان کو یہاں سے نہیں لے کے جا سکتی تو خیر ہے ان کو کم از کم ایک محفوظ مقام تک تو پہنچا دے تاکہ وہ سکون سے وقت گزار سکیں۔

عمیر نے کہا کہ انہوں نے خود دھماکے کی آواز سنی جو ان سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہوا، اس کے علاوہ ان کے پاس کھانے کا جو سٹاک موجود تھا وہ بھی اب ختم ہو گیا ہے جبکہ باہر کرفیو ہے اور کوئی بھی نہیں جا سکتا۔

عمیر نے مزید کہا کہ یہاں ہندوستانی طلباء کے ساتھ ان کا سفارتخانہ مسلسل رابطے میں ہے، ان کو خوراک بھی مہیا کی ہے لیکن ان کو کچھ نہیں ملا۔ عمیر کا کہنا ہے کہ یہاں سے جاتے ہوئے ان کے لاکھوں روپے خرچ ہوئے ہیں وہ اپنا میڈیکل ادھورا چھوڑ کے واپس نہیں آنا چاہتے لیکن موجود حالات میں وہاں رہنا ناممکن ہے لہذا ان کی مدد کی جائے۔

سفارتخانے نے بتایا فی الحال یوکرین میں ہی رہیں

سومی سٹیٹ میڈیکل یونیورسٹی کے تھرڈ ایئر کا طالبعلم ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ 24 فروری کی صبح کو انہیں پتہ چلا کہ یوکرین میں روس داخل ہو چکا ہے جس کے بعد سے حالات خراب ہونا شروع ہوئے لیکن ان کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے چند روز پہلے بتایا گیا تھا کہ آپ لوگ یہاں سے اپنے ملک جا سکتے ہیں آپ کی کلاسز آن لائن لی جائیں گی کیونکہ یہ علاقہ روسی بارڈر کے بہت قریب ہے جس کے بعد انہوں نے یوکرین میں موجود اپنے سفارتخانے سے رابطہ کیا لیکن ان کو بتایا گیا کہ فی الحال ان کو ایجنسیوں کی جانب سے ایسا کچھ نہیں کہا گیا لہذا وہ وہیں رکے رہے اور خود سے پاکستان آنے کے کوئی انتظامات نہیں کیے۔

ثناء اللہ نے کہا کہ جب حملہ ہوا تو انہوں نے دوبارہ سفارتخانے سے رابطہ کیا، پہلے تو وہ کال نہیں اٹھا رہے تھے اور جب کال اٹھائی تو ان کو کہا گیا کہ یہ لوگ لبیب پہنچ جائیں جبکہ لبیب سومی سے 972 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، سفارتخانے کے کہنے پر وہ لبیب کے لیے نکل پڑے لیکن جب دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تو ان کو روک لیا گیا اور مجبوراً یہ لوگ واپس آ گئے، واپس آ کر سفارتخانے کو آگاہ کیا کہ وہ نہیں آ سکتے، سفارتخانہ ان کی مدد کرے لیکن ابھی تک ان کی مدد نہ ہوسکی اور یہ لوگ سومی میں ہی رہائش پذیر ہیں کیونکہ راستے میں آنے والے دو پلوں کو بھی اڑایا جا چکا ہے اور ان کو سومی سے باہر نہیں جانے دیا جا رہا۔

ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ ان کے سارے ساتھیوں کے ساتھ پیسے ختم ہو گئے ہیں اور وہ دو دنوں سے صرف سیب کھانے پر وقت گزار رہے ہیں، پیسے ہیں کچھ طلبہ کے ساتھ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس کو ایکسچینج نہیں کر سکتے کیونکہ سارے سرکاری بینک اور منی ایکسچینج کے مراکز وغیرہ بند ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button