تعلیم

پاکستان کی ستائیس زبانیں جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں!

سید وقارعلی شاہ

چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر یوسف خشک نے اسلام آباد میں تین روزہ ادبی میلے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں ستائیس زبانوں کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہونے کا انکشاف کیا۔ ڈاکٹر یوسف خشک نے یونیسکو کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تقریباً 80 زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں سے 27 زبانیں معدوم ہونے کے قریب ہیں جن میں سے اٹھارہ زبانیں خیبر پختونخوا میں ہیں۔ ڈاکٹر یوسف خشک کا کہنا تھا کہ ملک میں اب بارہ ایسی زبانیں ہیں جن کو شدید خطرہ لاحق ہے جنہیں فوری بحالی کی ضرورت ہے۔

بدیشی زبان؛ سوات کے اراوے گاؤں میں بولی جانے والی یہ زبان دنیا میں سب سے زیادہ معدومی کے خطرے سے دوچار سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اس کے بولنے والوں کی تعداد صرف تین باقی رہ گئی ہے اور وہ تین بھی ستر سال سے زیادہ عمر کے لوگ ہیں۔ جب اکیڈمی نے اُن سے رابط کیا تو معلوم ہوا کہ وہ زبان پر عبور نہیں رکھتے لیکن کچھ محاورے، کچھ باتیں، کچھ جملے وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بول کر سمجھ سکتے ہیں جبکہ اس زبان کو 2014 میں معدوم قرار دیا گیا تھا لیکن اب اس کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے کام کیا جائے گا۔

پھالولہ؛ یہ زبان ضلع چترال کی وادی عشیریت، بیوڑی، شیشی اور کلکٹک میں بولی جاتی ہے، بولنے والوں کی تعداد آٹھ ہزار رہ گئی ہے۔

بروش؛ ہنزہ اور یاسین کی بروشو قوم بولتی ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 87 ہزار رہ چکی ہے۔

یدغا: چترال کے تقریباََ چھ ہزار لوگ اسے بولتے ہیں۔

دامیلی؛ ضلع چترال کی وادی دومیل میں ساڑھے پانچ ہزار لوگوں کی زبان ہے۔

کالاشہ؛ کالاشہ ایک داردی زبان ہے جو پاکستان کے بالکل شمال میں ضلع چترال کی کچھ وادیوں میں کالاش لوگ بولتے ہیں۔ اس زبان کو بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ 5 ہزار ہے۔

کلکوٹی؛ یہ زبان ضلع دیر کے علاقہ کلکوٹ میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔

سیویمے؛ 1973 مردم شماری کے مطابق سیویمے زبان کی بولنے والوں کی تعداد تین ہزار رہ گئی ہے۔

چلیسو: یہ زبان بھی مر رہی ہے۔ یہ شینا زبان بولنے والے اکثریتی لوگوں میں گھرے دیہاتوں میں بولی جاتی ہے۔ 1992 میں اس کے زبان بولنے والوں کی تعداد صرف دو ہزار تھی۔

اورماڑی: اسے جنوبی وزیرستان میں بہت کم لوگ بولتے ہیں۔ (اسے برکی زبان بھی کہتے ہیں)۔

بھایا: یہ سندھ میں بالخصوص حیدرآباد کے مضافات میں بولی جاتی ہے۔

لسی: اسے لسبیلہ بلوچستان میں لگ بھگ گیارہ ہزار افراد بولتے ہیں۔

دتکی: یہ زبان تھرپارکر کے علاقے میں بولی جاتی ہے۔

بٹیری: یہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر بٹیرا کے علاقے میں بولی جاتی ہے۔

کنڈال شاہی: یہ بھی معدومی سے دوچار ایک زبان ہے جسے وادی نیلم میں تقریباََ سات سو افراد بولتے ہیں۔

وخی: یہ ایرانی زبان ہے جو بنیادی طور پہ گلگت بلتستان کے علاقے گوجال اور ہنزہ میں بولی جاتی ہے۔ 9 ہزار لوگ یہ زبان بولتے ہیں اور یہ آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔

اپنے خطاب کے آخر میں چیئرمین اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک نے ملک میں معدوم ہونے کے قریب کُل ستائیس زبانوں کی بحالی کے لئے فوری اقدامات اٹھانے اور اسلام آباد میں پاکستانی زبانوں کی میوزیم بنانے کا اعلان بھی کیا۔

اسلام آباد میں تین روزہ ادبی میلہ اختتام پذیر

مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے دارالحکومت اسلام آباد میں ہر سال مادری زبانوں کا ادبی میلہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں میں لکھے جانے والے ادب کی ترویج اور ثقافتی تنوع کا جشن منایا جاتا ہے۔ تین روزہ ادبی میلے میں پاکستان کی 20 زبانوں کے 150 سے زائد مصنفین، دانشور اور فنکاروں کے علاوہ ادب و ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے لاتعداد مرد و خواتین شریک ہوئے۔

یہ وفاقی دارالحکومت میں ساتواں ادبی میلہ تھا۔ پہلی بار 2016 میں اسلام آباد میں پاکستان کی مادری زبانوں کا ادبی میلہ لوک ورثہ کے مقام پر منعقد ہوا تھا جو انڈس کلچرل فورم اور ایس پی او (ادارہ استحکام شرکتی ترقی) کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ تھا اور یو ایس ایڈ کے تعاون سے تشکیل دیا گیا تھا۔ یوں اس سال بھی اسلام آباد میں پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کا ادبی میلہ منعقد ہوا۔ اس میلے کے لیے اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے ادارے کے دروازے کھول دیے تھے۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے میلے کے انعقاد میں بھرپور تعاون کیا۔

معروف میزباں توثیق حیدر خوبصورت انداز سے نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ افتتاحی کلمات چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر یوسف خشک نے ادا کیے۔ تعارف انڈس کلچر فورم کے چیئرپرسن منور حسن نے کروایا جب کہ کلیدی خطبہ ڈاکٹڑ ناصر عباس نئیر نے دیا۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن غزالہ صیفی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئیں۔

اس تقریب میں ڈاکٹر منظور علی ویسریو کی کتاب "پاکستانی زبانیں اور بولیاں” کی تقریب رونمائی کے بعد کئی شعرا اور ادیبوں کو لائف اچیومنٹ اعزازات سے نوازا گیا جن میں اردو زبان سے زاہدہ حنا، پشتو کے درویش درانی، پوٹوہاری زباں کے شیراز طاہر، بلوچی کے غنی پرواز، پنجابی کی پروین ملک، سرائیکی زبان کے ڈاکٹر نصراللہ ناصر، سندھی زبان کی نورالہدی شاہ، ہندکو سے آصف ثاقب، براہوئی زبان کے گل بنگلزئی اور بلتی زبان کے حسن حسرت کو لائف اچیومنٹ ایوارڈز دیئے گئے۔ انڈس کلچرل فورم کی جانب سے منعقد کئے گئے تین روزہ ادبی میلے کی خاص بات یہ تھی کہ بچوں کے لئے سائنس لیب کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جہان بچے سائنسی تجربات سے محظوظ ہوتے گئے، اس کے علاوہ بک سٹالز اور ری فرشمنٹ سٹالز بھی لگائے تھے۔

یوں تین دن جاری رہنے والے ادبی میلہ میں مختلف زبانوں سے متعلق 20 کے قریب سیشن منعقد ہوئے۔ پاکستان میں بولنے والی تقریباً 20 زبانوں کے 100 ادیب، شعراء، دانشور اور صحافی زبانوں سے متعلق امور اور مختلف زبانوں میں شایع ہونے والی کتابوں پر بحث و مباحثہ میں مصروف رہے۔ تقریب کے آخر میں روایتی رقاص اسفندیار خٹک کے رقص اور کشمیر سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ بانو رحمت کے گانوں نے سماں باندھ لیا۔ بانو رحمت نے پانچ سے زائد زبانوں میں گیت گا کر خوب داد لی اور یوں موسقی کے ساتھ تقریبات اپنے اختتام کو پہنچی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button