سیاستکالم

یہ جمہوریت آخر کس بلا کا نام اور کس مرض کی دوا ہے؟

حمیرا علیم

اگر پاکستان کی تاریخ پہ نظر ڈالی جائے تو سوائے پہلی جمہوری حکومت کے کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جو ملک سے مخلص ہو۔ جس کا مقصد پاکستان کو ترقی دینا ہو۔ ہر سیاستدان سیاست میں صرف اس لیے آتا ہے کہ طاقت اور پیسے کا مزہ چکھ سکے۔ لوگ ہر الیکشن میں آزمائے ہوئے سیاستدانوں کے پرانے اور کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں کے جال میں با آسانی پھنس جاتے ہیں اور ایک بار پھر سے اسی سوراخ سے ڈسے جانے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں جس سے متعدد بار پہلے بھی زخم کھا چکے ہوتے ہیں۔

قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کی اولین ترجیح پاکستان کا استحکام تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے حکومت کو بحال کیا۔ بجائے لمبی چوڑی کابینہ بنانے کے اور اس کو لامحدود مراعات سے نوازنے کے انہوں نے پائی پائی بچا کر ملک کی ترقی کیلئے صرف کی۔ قائد اعظم اپنے ذاتی خرچ پہ سفر کرتے تھے۔ لیاقت علی خان اکانومی کلاس میں سفر کرتے تھے تاکہ خزانے پر بوجھ نہ پڑے جبکہ آج کے سیاستدان پورا جہاز اپنے دوستوں، رشتے داروں، وزراء اور منظور نظر صحافیوں سے بھر کر دنیا بھر میں دورے کرتے ہیں، سیون اسٹار ہوٹلز میں قیام کرتے ہیں اور ملکی خزانے سے ڈونیشنز بھی فراخدلی سے دیتے ہیں۔ بغیر یہ سوچے سمجھے کہ ان کی ان ساری عیاشیوں اور فیاضیوں کا بوجھ غریب عوام کو ٹیکس اور قرضوں میں اضافے کی صورت میں بھرنا پڑتا ہے۔

ہر سیاستدان اور جمہوری حکمران جب کہتا ہے کہ پاکستان خطرے میں ہے، اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے تو اس کی مراد اس کی اپنی ذات ہوتی ہے نا کہ سرزمین پاکستان۔ اگر اس کی جیب بھری رہے، اس کے سوئس بینک اکاوئنٹس کا بیلنس بڑھتا رہے، آف شور کمپنیز میں اضافہ ہوتا رہے، اس کی ساتوں براعظموں میں موجود جائیدادوں کا گراف بڑھتا رہے، اس کی کرپشن پہ پردے پڑے رہیں تو پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے ہی اس کی پکڑ کی جائے پاکستان (خدانخواستہ) موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

ان سیاستدانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ عوام جو ان کو اپنے نمائندوں کے طور پہ اس لیے منتخب کرتی ہے کہ وہ ان کی آواز بنیں گے، ان کے مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کریں گے وہ کس حال میں ہے۔ اسے بنیادی ضروریات زندگی میسر ہیں یا نہیں۔ جب بھی کسی سیاستدان سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ نے عوام کیلئے کیا کیا ہے؟ تو جواب ملتا ہے ہم نے فلاں فلاں ریفارم کیں، کسی قانون میں ترمیم کی۔ حالانکہ وہ سب ترامیم و ریفارمز بھی ان کے اپنے مفاد میں ہوتی ہیں نہ کہ عوام کی سہولت کیلئے۔

جب ان لوگوں کو اپنی تنخواہ اور مراعات میں سو فیصد اضافے کا بل پاس کرنا ہوتا ہے تو نہ صرف اسمبلی کا کورم پورا ہوتا ہے اور سب کی حاضری پوری ہوتی ہے بلکہ متفقہ طور پہ بل آدھے گھنٹے میں پاس بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عوام کو ریلیف دینے کیلئے اپوزیشن اور حکومتی جماعتیں اتنے ہی اتفاق رائے سے کوئی بل پاس کر لیں۔ اگر کبھی کوئی بل پاس ہو بھی جائے تو اس پہ عملدرآمد دیوانے کے خواب کی طرح ایک ناممکن بات ہے۔

ان کے مقابلے میں اگر مارشل لاء کا دور دیکھا جائے تو سوائے یحیی دور کے سب ادوار میں نہ صرف ملکی ترقی ہوئی بلکہ مہنگائی کا جن بھی قابو میں رہا۔ مانا کہ بین الاقوامی سطح پہ مارشل لاء کو اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی، انہیں تو اس چیز کی پرواہ ہوتی ہے کہ انہیں آٹا، تیل، چینی چاول، گیس، پانی بجلی ملتی رہے اور ان کے گھروں میں فاقے نہیں ہوں۔

ڈیمز سب جنرل ایوب کے دور میں بنے۔ جنرل ضیا کے دور میں راشن ڈپو کا سسٹم تھا۔ ان کے سارے دور حکومت میں اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ کسی بھی جمہوری حکومت میں اتنا دم نہیں کہ ذرا سی قدرتی آفت آ جائے یا ملک میں نقص امن کا خطرہ ہو تو وہ اپنے اداروں کی مدد سے ان مسائل کو حل کر پائے۔ زلزلہ ہو یا سیلاب، دہشتگردی ہو یا کالعدم تنظیموں سے نمٹنا، بارشوں کی وجہ سے پل ٹوٹ جائیں یا علاقے زیر آب آ جائیں، ٹرین کا حادثہ ہو یا طیارے کا سب سے پہلے پہنچنے والی آرمی ہے یا ایف سی۔ تو پھر یہ جمہوریت کس بلا کا نام اور کس مرض کی دوا ہے؟

اگر جمہوری دور حکومت میں بھی افواج نے ہی ملک کو بچانا ہے، اس کے مسائل کو حل کرنا ہے وہ بھی بغیر کسی اضافی تنخواہ کے تو پھر ان سیاستدانوں کا کیا فائدہ جو ایک گلاس ٹوٹنے کی تحقیق کیلئے بارہ رکنی کمیٹی تشکیل دے دیتے ہیں، جن کو ہزاروں میں تنخواہ بھی دی جاتی ہے، ٹی اے ڈی اے بھی اور مسئلہ بھی حل نہیں ہوتا۔ کیوں ہر وزیر اپنے محکمے کو تباہ و برباد کر کے ہی چھوڑتا ہے؟ لیکن وہی محکمہ جب فوج کے زیر نگرانی کام کرتا ہے تو ترقی پاتا جاتا ہے؟ کیوں بدعنوان سیاستدان بغیر کسی مقدمے، سزا اور احتساب کے اپنی تمام تر لوٹی ہوئی دولت سمیت مغربی ممالک میں باعزت زندگی گزارنے ہیں جبکہ فوج کا جنرل بھی اگر بدعنوانی میں ملوث پایا جائے تو اسے پھانسی کی سزا دی جاتی ہے؟

جب خلفائے راشدین قانون سے بالاتر نہیں تھے، وہ عوام کو جواب دہ تھے تو پاکستان کے سیاستدانوں میں ایسے کون سے سرخاب کے پر جڑے ہیں کہ انہیں ہر چیز سے استثناء حاصل ہے؟ کیوں ایک عام شخص ان سے سوال نہیں کر سکتا کہ وہ تو اپنی تنخواہ میں سے لاکھوں کا ٹیکس ادا کرے مگر یہ سیاستدان کھربوں کے مالک ہو کر بھی صرف چند ہزار ٹیکس ادا کریں اور وہ بھی چند ایک؟

کیوں یہ سب لوگ ان مراعات کے حقدار ہیں جن پر غریب عوام کا بھی حق ہے مگر اسے محروم رکھا جاتا ہے، کیوں آج کے جمہوری حکمراں قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کی طرح پاکستان سے مخلص نہیں ہو سکتے؟ کیوں بدعنوانی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی؟ کیوں جمہوریت ہمارے سروں پہ مسلط کر دی جاتی ہے؟ آخر کیوں؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button