کیا واقعی بلین ٹڑیز سونامی منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا ہے؟
ناہید جہانگیر
ہو سکتا ہے بلین ٹری منصوبے میں نرسریوں کو مفت میں پودے دیئے گئے ہوں لیکن وہی پودے ایک غریب کاشتکار کو عام قیمت سے زیادہ پر فروخت کئے گئے ہیں۔
چمکنی کے ایک کاشتکار رحیم خان کے مطابق چمکنی میں جتنی بھی نرسریاں ہیں ان کو مفت پودے دیئے گئے تھے لیکن ان کو بھاری قمیت پر پودے خریدنے پڑتے کیونکہ وہ ہر سال سالانہ پودے لگاتے ہیں، چاہئے تو یہ تھا کہ چھوٹے کاشتکاروں کو آسانی سے یہ پودے دیئے جاتے لیکن اس منصوبے میں بھی بڑے لوگوں کو اعلیٰ درختوں کے پودے دیئے گئے جبکہ ان جیسے بہت سے غریب لوگ محروم رہے یا ان جیسے چھوٹے کاشتکاروں کو علم ہی نہیں ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں رحیم خان نے بتایا کہ ہر سال وہ الاچی کا 1 پودا 1 روپے میں خریدتے تھے لیکن بلین سونامی ٹریز منصوبے کے بعد ایک پودا 10 روپے کا خریدنا پڑا کیونکہ آس پاس کے نرسری مالکان نے بتایا کہ حکومت 1 پودا 15 روپے کا خریدتی ہے تو پھر مقامی کاشتکاروں کو 1 روپے پر دینا خسارے کا سودا ہے۔
خیال رہے کہ بلین ٹری سونامی منصوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے گزشتہ دور حکومت میں شروع ہوا تھا۔
بلین ٹری سونامی منصوبے کے لیے سال 2013 میں ٹاسک فورس بنائی گئی تھی۔ تاہم اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز 2015 میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کیا تھا۔ عمران خان کی جانب سے اس ماحول دوست منصونے کا عالمی سطح پر مختلف ماحولیاتی تنظیموں کی جانب سے بھی اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔
شجرکاری ماحولیاتی تبدیلی سے بچنے اور بائیو ڈائیورسٹی (نباتاتی تنوع) کے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے لیکن لندن کے کیو گارڈن میں رائل بوٹینکل گارڈن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غلط درخت غلط جگہوں پر لگانے سے فائدے کی جگہ نقصان ہو سکتا ہے۔
لیکن دوسری جانب مخالف پارٹی نمائندوں، ماہرین سمیت عام لوگ بھی مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ماہرین مختلف سوالات اٹھا رہے ہیں جبکہ مخالف پارٹی نمائندے اور عام لوگ اس منصوبے کو ناکامی سے جوڑتے ہیں۔
کیا واقعی بلین ٹری منصوبہ ناکام ہو گیا ہے یا صرف غلط معلومات سے عام عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے؟ اس حوالے سے بلین ٹریز سونامی منصوبے پر کافی تحقیق اور کام کرنے والے سینئر صحافی تیمور خان نے بتایا کہ ہر سرکاری منصوبہ جب بھی شروع کیا جاتا ہے تو اس کے لئے کوئی سروے نہیں کیا جاتا، صرف ایک آئیڈیا پر کام کیا جاتا ہے، سروے سے کسی بھی منصوبے کے فائدے یا نقصان کا علم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اس منصوبے کے مطالق بھی کچھ سوالات ہیں جن کا جواب ملنا بہت ضروری ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے میں ٹھیکے اپنے منظور نظر لوگوں کو دیئے گیے جنہوں نے پودے عام نرخ سے بھی زیادہ میں فروخت کیے، لیکن رحیم خان کی اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے تیمور خان نے بتایا کہ وہ اس بات کے خود گواہ ہیں کہ گورنمنٹ نے ہر کاشتکار کو مفت پودے تقسیم کئے بلکہ مخصوص جہگیں بنا کر ہر کسی میں پودے تقسیم کئے۔
انہوں نے غلط معلومات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جن علاقوں میں جو جو پودے لگائے گئے ہیں ان کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ ماحول دوست نہیں ہیں، ان کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہے۔ دوسری اہم بات کہ یہ منصوبہ کاغذات میں جتنا پرکشش و خوبصورت نظر آ رہا ہے اس طرح سے پیش نہیں کیا گیا، وہی بات کہ سروے بہت ضروری ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے اگر سروے ہو بھی جاتا ہے تو جن منصوبوں میں گورنمنٹ کو زیادہ اور عوام کو کم فائد ہو تب ہی لاگو کیا جاتا ہے۔
تیمور خان نے کہا کہ اگر ماحول دوست پودے مقامی آب و ہوا کے مطابق لگائے جائیں تو پاکستان پر مستقبل میں خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے، ”منصوبہ بالکل ناکام ہو گیا ہے یا حکومت نے کوئی تشہیر نہیں کی افواہ ہے لیکن ماحول کے برعکس کچھ پودے لگائے گئے جو واقعی میں درست بات ہے۔”
خیبر پختونخوا کے وزیر جنگلات و ماحولیات اور جنگلی حیات اشتیاق ارمڑ نے بلین ٹریز سونامی کے خلاف افواہوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کامیاب تجربہ خیبر پختونخوا میں کیا گیا تھا تو اس لیے بعد میں وفاقی حکومت نے پورے پاکستان تک یہ منصوبہ وسیع کیا جس میں ہدف 10 ملین درختوں کا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت اب تک پورے پاکستان میں 2 ارب تک درخت یا پودے لگائے گئے ہیں۔
اشتیاق ارمڑ نے کہا کہ حکومت پاکستان نے کوشش کی ہے کہ جو خامیاں بلین سونامی ٹری میں ہوئیں، وہ 10 بلین پودے لگنے کا جو ہدف ہے اس میں نا ہوں، مقامی آب و ہوا کا بہت خیال رکھا گیا ہے، جن علاقوں میں جو پودے سودمند ہیں وہاں پر وہی لگائے جا رہے ہیں لیکن جہاں تک خیبر پختونخوا کی بات ہے تو اس منصوبے میں 1 ارب پودے لگانے تھے جس میں اب تک ایک لاکھ گیارہ ہزار ایکڑ پر 9 کروڑ 96 لاکھ پودے لگ چکے ہیں، بلین ٹریز پروگرام کے تحت رواں سال موسم بہار میں 540 ملین پودے لگائے جائیں گے۔
وزیر جنگلات و ماحولیات اور جنگلی حیات کے مطابق گزشتہ مون سون میں گڑھی چندن میں 11 ایکڑ پر 48 ہزار پودے لگائے گئے، ”بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کی بدولت پشاور کے نواحی علاقے گڑھی چندن کی پتھریلی بنجر زمین سرسبز جنگل میں تبدیل ہو چکی ہے، مون سون شجرکاری مہم میں گھڑی چندن کی 1 سو 11 ایکڑ اراضی پر 48 ہزار سے زائد پودے لگائے گئے ہیں جن میں کم پانی والے شیشم، یوکلپٹس اور کیکر وغیرہ کے پودے شامل ہیں، اس پروجیکٹ کے تحت اب تک صوبے کے 111541 ایکڑ اراضی پر 9 کروڑ 96 لاکھ پودے لگائے ہیں جبکہ موسم بہار شجرکاری مہم کے تحت صوبہ بھر میں مزید 107.854 ملین پودے لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔”
اس سوال کے جواب میں کہ بعض لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ جو ہدف پورا کرنے کا دعوی ہے تو کس نے تعداد و شمار کا اندازہ لگایا ہے یا ایک ایک پودا شمار کیا گیا ہے، سید محمد اشتیاق ارمڑ نے کہا غلطی کوتاہی پر اب تک اس پراجیکٹ سے 365 لوگوں کو نکالا گیا ہے، یہ بات درست نہیں یے کہ اس پراجیکٹ میں جو تعداد بتائی جا رہی ہے وہ اعداد و شمار غلط ہے یہ کوئی 60 یا 70 کا زمانہ نہیں ہے کہ لوگوں کو کچھ نظر نہیں آئے گا، جدید دور ہے، ڈرون کیمرے ہیں ہر سال شجرکاری میں لوگوں کو واضح فرق نظر آئے گا اور آ رہا ہے، ناکامی جیسی افواہیں پھیلانے والے کو بتانا چاہتا ہوں کہ باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ڈبلیو ڈبلیو ایف اور سپارکو آرمی اس کی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی بڑا یا چھوٹا منصوبہ اس طرح سموتھ نہیں چلتا کہیں نا کہیں کمی بیشی ضرور رہ جاتی ہے لیکن لوگوں میں اس غلط تاثر کو ہوا دینا کہ پراجیکٹ تو ناکام ہو گیا ہے غلط بات ہے، جہاں تک بلین ٹریز سونامی کی ناکامی یا کامیابی کی بات ہے تو 85 فیصد بالکل کامیاب ہے جبکہ 15 فیصد کہیں نا کہیں اس میں کمی بھی رہ گئی ہے جیسے پودوں کا خشک ہو جانا یا مقامی آب و ہوا کے مطابق نا ہونا لیکن اب ایسا نہیں ہے اور ہر علاقے کی آب و ہوا کے مطابق پودے لگائے جاتے ہیں۔
دوسری جانب پشاور یونیورسٹی انوائرمنٹل ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر آصف خان خٹک نے بلین ٹریز سونامی کے حوالے سے غلط معلومات اور افواہوں کے سوال میں بتایا کہ درخت لگانے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ یہ معلوم ہو کہ جو پودے جہاں لگائے جا رہے ہیں وہاں کی آب و ہوا موزوں ہے کہ نہیں، اگر ہے تو بہت ہی مثبت اثر پڑے گا اگر نہیں تو فائدے کی جگہ نقصان ہو گا، خیبر پختونخوا میں جب بلین سونامی ٹریز شروع ہوا تو ایک ارب درخت لگانے کا ہدف تھا اس کو 3 حصوں یا فیز میں تقسیم کیا گیا تھا کہ پہلے فیز میں 60 فیصد شمالی علاقوں میں پہلے سے موجود درختوں جیسے پائن یا چیڑ وغیرہ کے بیج یا تخم کو محفوظ کرنا تھا تاکہ مزید نئے درخت اگائے جا سکیں، اسی طرح 20 فیصد پودوں کے ہدف میں تمام کاشتکاروں سے پوچھا گیا تھا کہ وہ کون سے درخت لگانا چاہتے ہیں، کاشتکاروں نے یوکلیپٹس (لاچی) کے پودوں کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ اس کا معاشی فائدہ ہوتا ہے یہ درخت 7 سالوں میں تناور بن جاتا ہے اور مارکیٹ میں مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے کاشتکار اس کو فروخت کر دیتے ہیں۔ لیکن ماحولیات کے حوالے سے یہ درخت نقصان دہ بھی ہیں کیونکہ یہ زیرزمین پانی کا استعمال بہت زیادہ کرتا ہے، جن علاقوں میں یہ درخت لگائے جاتے ہیں تو زیرزمین پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے، دوسری جانب ان علاقوں کے لئے اچھا ہوتا ہے جہاں نمی زیادہ ہو کیونکہ یہ پودے لگانے سے وہاں نمی ختم ہو جاتی ہے۔ تیسرے فیز میں 20 فیصد پودے وہاں لگانے تھے جہاں پر بنجر زمین تھی اتنے پودے لگائے گئے تاکہ مصنوعی جنگلات بن سکیں۔
خیبر پختونخوا سیکرٹری جنگلات عابد مجید کے مطابق بلین ٹری سونامی پراجیکٹ شجرکاری کے تحت گڑھی چندن کی پتھریلی زمین سرسبز جنگل بن چکی ہے، اور اس سال بھی وزیراعظم عمران خان نے محکمہ جنگلات کو 22 فروری کو پلانٹ فار پاکستان کے نام سے بلین ٹری پروگرام کے تحت پودے لگانے کی ہدایت کی ہے۔