صحت

وہ حالات جن نے سنگ تراشوں، موسیقاروں، ادبا اور شاعروں کی سوچ بدل دی

 

خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام میں نہ صرف سرکاری ادارے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں بلکہ فائن آرٹ اور ثقافت سے جڑے ہنرمند افراد اپنے ہنر کے ذریعے بھی عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لئے اقدامات اُٹھارہے ہیں جنہوں نے اپنی پینٹگز، شاعری اور موسیقی میں وہ تبدیلیاں لائی ہیں جس سے عوام میں کورونا کے متعلق آگاہی کے اشارے موجود ہوتے ہیں۔
ضلع ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے موسیقار امجد شہزاد نے نوجوانوں کو موسیقی سکھانے کیلئے ہنرکور کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے لیکن کورونا وبا کے بعد وہ آن لائن موسیقی سکھانے پر مجبور ہوگئے۔ انکی آن لائن موسیقی سکھانے کی جہد اس وقت زیادہ معروف ہوئی جب افغانستان کے موسیقی کے طالبعلم پاکستان میں ہجرت پر مجبور ہوگئے۔

امجد شہزاد کا کہنا ہے کہ جب افغانستان میں طالبان نے کابل پر حملہ کیا تو موسیقی کی دنیا سے جڑے بیشتر ہنرمند افراد نے پاکستان کا رُخ کیا جس میں کچھ لوگ مہاجر بن کر خیبرپختونخوا، بلوچستان اور دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہوئے تو انہیں تربیت دینے کیلئے انہوں نے آن لائن موسیقی سکھانے کا اہتمام کیا۔
کہتے ہیں کہ آن لائن موسیقی کا مقصد یہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران اکثر موسیقی سیکھنے والے افراد اپنے کلاسز میں نہیں بیٹھ سکتے تھے جس کے لئے ہم نے آن لائن نظام کا سہارا لیا۔
کہتے ہیں کہ وہ اپنے ادارے میں نوجوانوں کو رباب، ہارمنونئیم، گٹھار اور دیگر موسیقی کے آلات پر درس دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انکے شاگردوں میں سات خواتین اور سولہ نوجوان شامل ہیں جو یورپی خلیجی اور ہمسایہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔

امجد شہزاد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آن لائن موسیقی ایجوکیشن میں نوجوانوں کو کوئی ایسے مسائل درپیش نہیں ہے جس کی وجہ سے انکی موسیقی کی کلاسز متاثر ہو کیونکہ آج کل انٹرنیٹ کی سپیڈ بھی تیز ہے اور نوجوان نسل کورونا وبا کے دوران آن لائن نظام کے ساتھ فیمیلئر ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس دوران کورونا وبا سے جان بچانےکیلئے اپنی شاگردوں کو سماجی فاصلہ رکھنے، ہاتھ کو صابن سے دھونے اور ویکسین لگانے کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک جان لیوا مرض ہے اور ہمیں اپنی نوجوان نسل کی صحت کی سخت فکر ہے اسکے علاوہ ہم پولیو قطروں کے حوالے سے بھی شاگردوں کے علاوہ دیگر عوام کو بھی ترغیب دیتے ہیں۔

اسی طرح ضلع باڑہ میں شعراء تنظیم باڑہ ادبی لیکوال کے ثاقب افریدی کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران انکی شاعری کی جہت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شعراء اور ادباء اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں اور معاشرے میں چلنے والے حالات کا ان پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

ثاقب افریدی ٹی این این سے اپنے خیالات کا اظہار تنظیم کی جانب سے ایک مشاعرے کے بعد کیا، رپورٹر خادم افریدی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں ” اگر آپ نے نوٹ کیا ہو تو مشاعرے کے دوران بیشتر شعراء کی شاعری میں کہیں نہ کہیں کورونا وبا سے جان بچانے کیلئے اشارہ موجود تھا اور انکیے نظموں اور غزلوں میں وبا کے نقصانات کا ذکر موجود تھا”۔

ثاقب افریدی کا کہنا ہے کہ شاعری میں کسی مسئلے کا اس لحاظ سے احاطہ نہیں کیا جاسکتا ہے جس طرح افسانے میں وضاحت کی جاسکتی ہے کیونکہ شعر میں عام لوگوں کو وضاحت سے سمجھایا نہیں جاسکتا۔
"اگر میں افسانے کی بات کروں تو آیاز اللہ ترکزئی نے اس پر ‘قرنطین’ کے نام سے افسانہ لکھا ہے، بہت زبردست افسانہ ہے۔ اسی طرح دوسرا مصنف ہے، ڈاکٹر ہمدرد یوسفزئی انہوں نے ‘وبا’ کے نام سے افسانہ لکھا ہے جس میں وبا کے اثرات، احساسات اور نقصانات کا گہرائی سے ذکر کیاگیا ہے”۔

باڑہ ادبی لیکوال تنظیم کے ایک شاعر رُکن خکاری افریدی نے ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے کورونا وبا سے بچاؤ کی خاطر پشتو زبان میں نظمیں لکھی ہیں اور ساتھ اپنی شعراء کی محافل میں وبا کے اثرات اور اس سے جان بچانے پر وقتاً فوقتاً بات بھی کی۔
انہوں نے کورونا وبا کے دوران پھیلنے والے افواہوں پر کہا کہ انہوں نے ایک نظم لکھی ہے جسکا پہلا شعر کچھ یوں ہے ‘کورونا رښتيا د بيمارۍ شکل دي، که نه هسي د ډرامي شکل دے‘ جس کی معنی ہے کہ کیا کورونا واقعی بیماری کی شکل ہے یا ڈرامہ ہے’

خکاری افریدی نے کہا کہ اسکے علاوہ تنظٰیم کے شعراء نے اپنی شاعری میں اُن شہداء کو خراج عیقیدت پیش کیا ہے جنہوں نے کورونا وبا کی وجہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

فائن آرٹ کے سٹوڈنٹ سلمان احمد کا کہنا ہے کہ جب کورونا وبا پھیل گئی تو اس سے انکے درس کا نظام سخت متاثر ہوا تو انہیں فکر لاحق ہوئی کہ وبا کے متعلق عوام میں پینٹنگز کے ذریعے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے  تاکہ وہ احتیاط کرے اور وبا میں کمی واقع ہوجائے۔

انہوں نے ایک پینٹگ بنائی ہے جس میں ہتھوڑے کی ڈرائنگ میں کورونا وائرس کی شکل کو اندر داخل کرکے دکھایا ہے لیکن اس کا مطلب کیا ہے تو سلمان احمد کا کہنا ہے کہ ہتھوڑا ایک مضبوط اوزار کے طور پر تصور کیا جاتا ہے تو اس میں کورونا کی شکل ڈالنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ایک مضبوط خطرناک وائرس ہے۔
سلمان احمد کا کہنا ہے ‘کورونا وبا کی ہتھوڑے نے کاروبار، تعلیمی ادارے اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے، اس آئڈیا میں میں نے شو کیا ہے کہ اس سے کیسے جان بچا سکتے ہیں تو ہتھوڑے کے آخر میں ایس او پیز نیچے سے ہتھوڑے کو دباتے ہیں اور اسکا اثر ختم کردیتے ہیں’۔

اس سٹوری کے لیے خادم آفریدی، نصیب یار اور نبی جان نے معلومات فراہم کی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button