مصباح الدین اتمانی
پشاور میں خواجہ سرا حسینہ پٹھانی گولیوں کی زد میں آکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے معذور ہو گئی! خواجہ سراء اپنے ساتھی کو انصاف دلانے کیلئے اپنے کمفرٹ زون سے نکل آئے، خیبر پختونخوا پولیس کی کارکردگی اور قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی غرض سے پشاور پریس کلب کا رخ کیا، انصاف کے حصول کیلئے ان کا عزم قابل دید تھا لیکن مجھے جس بات نے زیادہ متاثر اور سوچنے پر مجبور کیا وہ ان خواجہ سراؤں کا اتحاد تھا۔۔۔۔
وہ ایک گھر کے افراد نہیں تھے نہ ہی وہ ایک خاندان میں پلے پولے تھے لیکن ان کی نظریں ان کو لیڈ کرنے والے خواجہ سرا فرزانہ کے اشارے پر مرکوز تھی، وہ جو کہتی سب اس کی آواز میں آواز ملاتے!
غم سے نڈھال ایک خواجہ سرا کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے، دھیمی مگر دلیرانہ انداز میں صحافیوں کو مخاطب کیا کہ "حسینا بے قصور تھی، مجھے رات بھر دھمکیاں ملتی رہی کہ حسینا کیلئے آواز نہیں اٹھانا ہے ورنہ آپ کا بھی انجام وہی ہوگا، لیکن میں ان قاتلوں ان بدمعاشوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ سامنے آو اور مجھ پر گولی چلاو، میں خاموش بیٹھنے والی نہیں، اس کے جذبات میں شدت تھی، فرزانہ اسے سینے سے لگا کر حوصلہ دے رہی تھی لیکن وہ واقعی خاموش ہونے والے نہیں تھی، ساتھ میں کھڑے ایک خواجہ سرا سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ خواجہ سرا حسینا پٹھانی کا استاد یعنی گورو نینا ہے۔
اکثر خواجہ سراؤں کو معاشرے کے رویوں سے تنگ آکر یا تو والدین خود گھروں سے نکال دیتے ہیں یا وہ اپنے والدین کو طعنوں اور طنزیہ جملوں سے بچانے کی خاطر گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، زیادہ تر خواجہ سراؤں کو دیکھا ہے جب کوئی ان سے والدین یا گھر کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ زار و قطار رونے لگتے ہیں جس سے ان کی دلی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کہنے کا مطلب ہے کہ جب یہ گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں خواجہ سراؤں کے ڈیرے ہوتے ہیں، وہاں ایک خواجہ سرا کو چن لیتے ہے جن کے زیر نگرانی وہاں رہائش اختیار کر لیتے ہیں،جس کو وہ چنتے ہے اس کو استاد یا گورو جبکہ یہ چیلے کہلائے جاتے ہیں، ان کے درمیان رشتہ والدین اور بچوں کا ہوتا ہے۔
زخمی حسینا پٹھانی کے گورو نینا نے درد بھری آواز میں اس واقعہ کا ذکر کیا جو چند دن پہلے ان کے ساتھ پشاور شہر میں پیش آیا تھا، نینا کے مطابق وہ حسینہ اور دیگر خواجہ سراؤں کے ساتھ ایک پروگرام کیلئے جا رہے تھے، خزانہ کے قریب ان کی گاڑی کو روکا گیا اور ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کی گئی، پھر بلا جھجھک فائرنگ کرنے والے دونوں افراد کے نام بتا کر ابدیدہ ہو گئی!
‘حسینہ پٹھانی کے پاوں میں گولی لگی، وہ چیخ رہی تھی اور یہ ظالم فائرنگ کر رہے تھے، ایسا تو کوئی جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کرتا، انسان کو ترس آتا ہے لیکن یہاں تو ہمارے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر رویہ روا رکھا جاتا ہے، حسینہ کو تو ہمیشہ کیلئے معذور کر دیا اب وہ بھیک مانگیں گی، لیکن اب مجھے دھمکیاں مل رہی ہے’ نینا نے کہا۔
جہاں تک میں نے دیکھا ہے خواجہ سرا بڑے رحم دل اور بے ضرر ہوتے ہیں، میں نے نینا سے پوچھا آپ کو دھمکیاں کیوں دیتے ہیں تو اس کا یہ جواب سن کر میں شرم سے پانی پانی ہو گیا کہ دھمکیاں دینے والے کہتے ہیں کہ آپ گورو ہیں ہمیں خواجہ سراؤں کے نمبر دیا کریں اور ان سے ہماری ملاقاتیں کروائیں ورنہ ہم آپ کو جان سے مار دیں گے!
نینا نے کہا میں جب گھر سے نکلتی ہوں تو دل میں یہ خوف اور خیال ہوتا ہے کہ اب گولی آکر میرے سینے کے آر پار ہوگی، مرد دیکھ کر ڈرنے لگتی ہوں کہ اب میرے سر میں گولی دے ماریں گے، ہم ہر روز ہر وقت مرتے رہتے ہیں لیکن ہم کیا کریں؟ ہمیں اللہ نے پیدا کیا ہے اور اس معاشرے سے اپنا وجود منوا کر رہیں گے!
میں نے کہا یہ پولیس کیا کرتی ہے آپ ان کے پاس جائے نا! نینا نے آہ بھری اور کہا اس دنیا میں صرف پولیس ہے جن سے ہمیں کچھ نہ کچھ توقع ہوتی ہے لیکن جب ہم ان کے پاس جاتے ہیں تو پہلے وہ مذاق اڑاتے ہیں، پھر الٹا ہمیں قصور وار ٹہراتے ہیں کہ آپ لوگ ڈانس کیوں کرتے ہیں؟ آپ لوگ ماں باپ کے پاس کیوں نہیں رہتے؟ یہ تو آپ لوگوں کے ذاتی معاملات ہیں اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں خود جاکر حل کرو!
تو ان پولیس والوں کو ہم کیسے اپنی حالات سمجھائے کہ ہم اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کرتے ہم مجبور ہیں، ہم اگر کوئی روزگار بھی کرتے ہیں تو یا معاشرہ ہمیں قبول نہیں کرتا، ہم سے ایک ایک کمرے کا کرایہ 20، 25 ہزار روپے لیا جاتا ہے، ہم یہ کہاں سے دیں گے؟ کوئی بھی شخص آکر ہم سے ناجائز مطالبہ کرے، ہم انکار کریں اور وہ گولی چلائے، یہ کیسے ہمارے ذاتی معاملات ہے، پھر ہم بھی بندوق چلانا سیکھ لیں گے، پھر ہم بھی گولی چلائیں گے!
خواجہ سرا نینا کی باتوں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، کب تک ہم اللہ کی اس تخلیق کو ستائیں گے؟
یہ رقص کرتے ہیں؟ غیر اسلامی ہے مان لیتا ہوں لیکن ان کو رقص کیلئے لے جانے والے کون ہوتے ہیں؟ ان کے رقص کو دیکھنے اور اس سے محظوظ ہونے والے کون ہوتے ہیں؟ یہی نام نہاد مرد ہوتے ہیں، نینا یہ قصہ سنا رہی تھی کہ اس کا ایک اور خواجہ سرا ساتھی آیا اور بتایا کہ جو ہم پر تشدد کرتے ہیں وہ ہماری نظروں میں ہم سے بھی زیادہ کمزور ہے، یہ سن کر میں نے اپنا مائیک بند کر دیا کہ واقعی وہ آپ سے بھی زیادہ کمزور ہے۔