بلاگزلائف سٹائل

ویلنٹائن ڈے: پیار کے معصومانہ اظہار کا دن یا اس کی حقیقت کچھ اور ہے؟

حمیرا علیم

فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی دنیا میں ویلنٹائن ڈے منانے کی تیاریاں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ کنوارے ہوں یا شادی شدہ سب اپنے ویلنٹائن کو گفٹس، کارڈز اور پھول بھیجتے ہیں اور مختلف ہوٹلز اور ریسٹورنٹس پر لنچ اور  ڈنر کرواتے نظر آتے ہیں لیکن کیا یہ دن صرف اپنے پیاروں سے پیار کے معصومانہ اظہار کا ایک دن ہے یا اس کی حقیقت کچھ اور ہے؟ اس بارے میں جاننے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔

اس کی ابتداء کے بارے میں کئی روایات ہیں آئیے ذرا ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق اس دن کا تعلق قدیم رومی دیوتا Lupercallia کے مشرکانہ تہوار سے ہے۔ یہ تہوار 15 فروری کو Juno Februata  کے آغاز میں منعقد ہوتا تھا۔ لڑکیوں کے نام ایک برتن میں ڈال دیئے جاتے اور مرد بنا دیکھے جس لڑکی کا نام نکالتے وہی تہوار کے ختم ہونے تک اس کی ساتھی بن جاتی۔ جب روم میں عسائیت کو فروغ ملا تو اس تہوار کو عسائیت کا جامہ پہنانے کی کوشش اس طرح کی گئی کہ لڑکیوں کی بجائے سینٹس (اولیاء) کے نام ڈال دیئے گئے۔ اب جس سینٹ کا نام نکلتا مرد کو سارا سال اس کی تقلید کرنا پڑتی۔ لیکن یہ کوشش ناکام رہی اور دوبارہ سے لڑکیوں ہی کے نام لکھے جانے لگے۔

کئی لوگ اس تہوار کو کیوپڈ سے متعلق سمجھتے ہیں جو روم میں محبت کا دیوتا ہے اور تیر مار کر لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے۔ اس کی ماں محبت کی دیوی وینس ہے جس کا پسندیدہ پھول گلاب ہے۔

ایک اور روایت کے مطابق سینٹ ویلنٹائن کو Claudius نے 14 فروری کو اس جرم میں قتل کروا دیا تھا کہ وہ ایسے فوجیوں کی خفیہ شادیاں کرواتا تھا جنہیں شادی کی اجازت نہ تھی۔ دوران قید بشپ کو قید خانے کے داروغہ کی بیٹی سے عشق ہو گیا۔ اس نے اسے خط لکھا جس کے آخر میں لکھا تمھارا ویلنٹائن! یہ طریقہ بعد میں لوگوں میں رواج پا گیا۔ 496ء میں پاپائے روم Gelusius نے 15 فروری کے مشرکانہ تہوار کو یوم ویلنٹائن میں تبدیل کر دیا۔

اسی طرح کی ایک اور روایت کے مطابق 300ء میں رومن شہنشاہ کا مطالبہ تھا کہ سب لوگ رومن دیوتاؤں پر ایمان لائیں۔عیسائی پادری ویلنٹائن نے احتجاج کیا تو اسے جیل میں ڈال کر پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اسے جیلر کی بیٹی سے پیار تھا۔ اس نے اسے خط لکھا جس کے آخر  میں لکھا ‘تمھارا ویلنٹائن!’

یہ دن رومن دعوت لوپرسیلہ سے منسوب تھا جو کہ میلہ فیونس (زراعت کا دیوتا) کہلاتا تھا۔ پادری ایک مقدس غار میں خواتین کے ہاتھوں پر بکری کی کھال سے بنے چھانٹوں سے ضرب لگاتے جس سے یہ چھانٹے خون آلود ہو جاتے۔ ایسا اس لئے کیا جاتا تاکہ خواتین مزید بارآور ہو سکیں۔

لوپرسیلہ کے بعد فروری ہی میں جنو کا میلہ بھی ہوتا تھا جو کہ خواتین، پیار محبت اور شادی کی رومن دیوی تھی۔ اس میلے میں خواتین کاغذ کے ٹکڑوں پر اپنے نام لکھتیں اور مرد ان میں سے ایک ٹکڑا اٹھاتے اور جس خاتون کا نام لکھا ہوتا وہ اس دن کیلئے اس کی ساتھی ہوتی۔

عیسائی بادشاہ قسطنطين کے دور میں (288-377ء) تمام ملحدانہ رسومات عسائیت کا حصہ بن گئیں کیونکہ وہ رومن تھا۔494ء میں پوپ جیلس اول نے ان ملحدانہ میلوں کے خاتمے کا فیصلہ کیا اور لوپرسیلہ کے میلے کو کنواری مریم کے میلے سے بدلنے کا فیصلہ کیا۔ آج بھی کیتھولک عیسائی 15 فروری کو یہ دن مناتے ہیں۔ یہ دن روم اور یونان کے دور کفر میں منایا جاتا تھا کیونکہ فروری کو پیار، بارآوری اور بہار کا مہینہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ دو گمراہ کن عقائد کا حصہ تھا۔

ایک اور روایت کے مطابق 1492 میں اسلام کیخلاف صلیبی جنگوں کے دوران سینٹ پیڈرو ویلینٹینو نے 14 فروری کے دن کو پیار سے منسوب کیا جبکہ اسی دن یورپ اور اسپین میں اسلام کو تباہ کیا گیا تھا۔

1776 میں فرانس نے اسے ممنوع قرار دیا۔ پھر اٹلی، ہنگری، آسٹریلیا اور جرمنی میں بھی اس پر پابندی لگا دی گئی۔ انگلینڈ میں Puritans کے دور میں تو یہ منع تھا مگر چارلس دوم نے اسے پھر سے رائج کر دیا۔ امریکہ میں Eahowland نے پہلی بار ویلنٹائن کارڈ بیچ کر 5000 ڈالرز کمائے۔ 1990 میں امریکہ میں ایک ارب کارڈز بذریعہ ڈاک بھیجے گئے جس سے محکمہ ڈاک کو بھی 30 ملین کا منافع ہوا۔

ویلنٹائن ڈے پر سرخ کپڑے پہننا، کارڈز، تحائف اور پھول دینا اب پاکستان میں بھی رواج پا گیا ہے۔ بظاہر تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی مگر اس کے ذریعے جوان لڑکے لڑکیوں کے آزادانہ تعلقات اور جنسی بے راہ و روی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ محبت بھرے پیغامات، رومانی ملاقاتیں، رقص و موسیقی کی محافل بچوں کے اندر شہوانی احساسات پیدا کرتے ہیں حتی کہ اسکولز اور کالجز میں بھی یہ دن پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ غیرملکی آئس کریم کمپنیز اور فون کمپنیز اس دن فری سروسز دے کر بے حیائی کے فروغ کا سبب بنتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا پے کہ بطور مسلم کیا یہ سب خرافات ہمارے لئے جائز ہیں؟ جی نہیں! نہ تو مسلمانوں کو یہ تہوار منانے کی اجازت ہے نہ ضرورت۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو عیدین کے علاوہ کسی قسم کے تہوار نہ تو منائے نہ ہی ان کی ترغیب دی اور ان کے علاوہ تمام تہوار، رسوم اور رواج بدعات ہیں جیسے: میلاد النبی )یہ کرسچنز سے متاثر ہو کر شروع کیا گیا جیسے وہ کسمس مناتے ہیں مگر اب اس میں ہندوؤں کی طرح مساجد کے ماڈلز وغیرہ بھی بنائے جاتے ہیں اور لہک لہک کر میوزک کy ساتھ قوالیاں اور نعتیں بھی گائی جاتی ہیں) ہولی، دیوالی، ایسٹر، ویلنٹائن ڈے، محرم کے جلوس، شب براءت، بسنت، مدرز ڈے، فادرز ڈے اور اینورسریز وغیرہ وغیرہ۔ عیدین پہ بھی سیر و تفریح اللہ تعالٰی کی قائم کردہ حدود میں رہ کر منانا چاہیے ۔یہ نہیں کہ پورا رمضان تو عبادات کریں اور چاند رات کو ہی خواتین بے پردہ ہو کر بازاروں میں غیر ردوں سے مہندی لگواتیں اور چوڑیاں پہنتی ہیں اور مرد حضرات ان کا پیچھا کرتے اور بیہودہ حرکات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ذرا سی تفریح کرنے اور کسی کی خوشی میں خوش ہونے میں کیا حرج ہے؟ ان کا ساتھ دیتے ہوئے وہ احادیث ضرور ذہن میں رکھنی چاہئیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں غیرمسلموں کی پیروی سے روکا ہے۔ اور یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ قرب قیامت میں ہم انچ بہ انچ ان کی پیروی کریں گے۔ ان کو منانے کا مطلب ہے کہ ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ یہ تہوار صحیح ہیں۔ جبکہ بیشتر کا کسی مذہب سے تعلق ہی نہیں ہے۔ ان کی نہ کوئی تاریخی حیثیت ہے نہ شرعی اور یہ صرف لوگوں کی ذہنی اختراع ہیں۔

قرآن پاک میں عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت مریم علیہ السلام کو کھجور کا درخت ہلانے اور گرنے والا پھل کھانے کا کہا گیا ہے۔ کھجور گرمی کا پھل ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ عیسی علیہ السلام گرمی کے موسم میں پیدا ہوئے۔ جبکہ عیسائی ان کا یوم پیدائش دسمبر میں مناتے ہیں۔

ویلنٹائن کا دن اگر اپنے پیاروں سے اظہار محبت اور ان کو تحائف دینے کیلئے منایا جاتا ہے تو ایسا صرف ایک دن تک ہی کیوں محدود ہو، سارا سال یہ کام کیوں نہ کیا جائے۔ دوسرے محبت تو والدین، اولاد، بہن بھائیوں اور ازدواج کے درمیان ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جو محبت ویلنٹائن ڈے کی مرہون منت ہے اسے قرآن و سنت بے حیائی اور فحش کا نام دیتا ہے۔ اسلام میں حرام محبت کا کوئی تصور نہیں ہے۔

قرآن پاک کی سورہ نور کی آیت 25 میں اللہ تعالٰی نے مسلم خواتین کی ایک خوبی یہ بھی بیان کی ہے کہ وہ چوری چھپے دوست بنانے والی نہیں ہوتیں۔ سورہ المائدہ میں بھی یہی خاصیت بیان کی گئی ہے: "تمھارے لیے پاک دامن مسلمان عورتیں ہیں۔۔ انہیں نکاح کی قید میں لانے والے بنو نہ کہ بدکاری کرنے والے اور نہ ہی چھپی آشنائی رکھنے والے۔”

سورہ مومنون کی آیت 5 میں فرمان ربی ہے: "اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔” سورہ نور کی آیات 26-30-33 میں بھی یہی خوبیاں بیان کی گئی ہیں: "اے نبی آپ مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے۔”

” اور آپ مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو ازخود ظاہر ہو۔ اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں۔”

"اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے معلوم ہو جائے۔”

"اور جو لوگ نکاح کی طاقت نہیں پاتے انہیں پاک دامن رہنا چاہیے۔”

ان آیات میں بھی حلال محبت پر ہی زور دیا گیا ہے۔ پھر ویلنٹائن ڈے پر نامحرموں کا اختلاط اور تبادلہ تحائف چہ معنی دارد۔ اللہ تعالٰی تو نامحرموں کو دیکھنے سے منع فرماتے ہیں۔ مرد کو فرمایا "نظر نیچی رکھو۔” اور عورت کو فرمایا "اپنے آپ کو ڈھانپو اور زینت ظاہر نہ کرو۔” پھر یہ سب کچھ کیسے جائز ہو گیا۔

پھر ذرا یہ بھی سوچیے کہ سب سے زیادہ ہماری محبت کا مستحق کون ہے؟ کیا وہ ہستی جو ہمارا خالق اور رزاق ہے اس بات کا سب سے زیادہ حقدار نہیں کہ ہم اس سے سب سے بڑھ کر محبت کریں۔ اس کی محبت میں تن من دھن لگائیں بجائے اپنے نفس کی تسکین کے۔ اصل محبت تو یہی ہے جو ہمارا رب ہم سے کرتا ہے۔ ہر مشکل اور پریشانی میں صرف وہی ہمارے ساتھ ہوتا ہے جبکہ سب دنیاوی محبتیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔

اللہ تعالٰی کے بعد جس شخصیت کا ہم پر سب سے بڑا احسان ہے وہ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔ کیا کبھی ہم نے ان سے اتنی ٹوٹ کر محبت کی ہے؟ کبھی انہیں تحفے میں صلوۃ پڑھ کر بھیجی ہے، کبھی ان سے محبت کے اظہار کے طور پر داڑھی اور ٹخنوں سے اوپر شلوار رکھی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھ سے اپنے باپ اپنی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبت نہ کرے۔” (صحیح بخاری) قرآن پاک میں کئی بار اسی حقیقت کو دہرایا گیا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تم سے محبت کرے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت کرو، ان کی پیروی کرو۔

ہم کسی سے محبت کیوں کرتے ہیں؟ خوبصورتی، دولت، اخلاق، دینداری، نیک کام یا کچھ اور خصوصیات ہمیں کسی سے محبت پہ مجبور کرتی ہیں۔ مگر ویلنٹائن ڈے پہ کون سی محبت ہے؟ صرف اور صرف نفس کی، اور شہوت کی۔ اور انہی فضول رسوم کی وجہ سے بعض اوقات گھر تباہ ہو جاتے ہیں۔ کئی طلاقیں اسی وجہ سے ہوتی ہیں کہ شوہر نے ویلنٹائن ڈے پر تحفہ نہیں دیا یا برتھ ڈے بھول گیا۔

اسلام کو چھوڑیئے، عسائیت میں بھی کچھ فرقے اس کے سخت خلاف ہیں اور ان رسومات کو ملحدانہ مانتے ہیں۔ دراصل یہ سب رسومات کاروباری حضرات کیلئے فائدہ مند ہیں اس لیے ان کو اتنا پرموٹ کیا جاتا ہے خصوصاً امریکہ اور یورپ میں  اس دن کاروباری حضرات کی چاندی ہو جاتی ہے اور غریب ممالک کی عوام بھی ان دنوں میں اربوں روپے پھولوں، کارڈز اور تحائف پر اڑا دیتی ہے۔

شیطان نے اللہ تعالٰی کے سامنے جو دعوی کیا تھا کہ وہ ہر طرح سے اس کے بندوں کو گمراہ کرے گا، اس کو پورا کرنے میں وہ زور و شور سے مصروف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری کریں۔ ویسے تو لبرلز کو عید الاضحٰی پر قربانی کی بجائے غریبوں کی مدد کا خیال آ جاتا ہے لیکن ویلنٹائن ڈے پہ اربوں روپے کے ضیاع پہ کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

قرآن پاک میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے: "کہہ دو کہ بیشک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت اللہ کیلئے ہے۔ جو جہانوں کا پالنے والا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔” الانعام162-163

اللہ تعالٰی ہمیں اپنی محبت عطا فرمائے اور وہ اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن سے اس کی محبت حاصل ہو!

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button