بلاگزلائف سٹائل

ویلنٹائن ڈے اور پسند کی شادی: جو حق دین نے دیا وہ یہ معاشرہ کیوں نہیں دیتا؟

خالدہ نیاز

آج ویلنٹائن ڈے ہے لیکن میں نے سوچا چلو آج ویلنٹائن ڈے کی نہیں محبت کی بات کرتے ہیں کیونکہ محبت کی بات کرنا تو گناہ نہیں ہے نا اگرچہ یہاں تو محبت کیا محبت کی بات کرنے کو بھی گناہ سمجھا جاتا ہے اور محبت کرنے والوں کو ہم اپنے ہاتھوں سے مار دیتے ہیں۔ کس کس کو ماروگے بھائی؟

محبت کرنے والوں کو ہم جینے کیوں نہیں دیتے، کیا ان کو جینے کا حق نہیں ہے؟ پچھلے دنوں سوات میں ایک لڑکی اور اس کے خاوند کو ہم نے صرف اس لیے جان سے مار دیا گیا کیونکہ انہوں نے پسند کی شادی کی تھی، پسند کی شادی کا حق تو ہمیں ہمارا دین بھی دیتا ہے تو پھر یہ معاشرہ کیوں نہیں دیتا؟

کوہستان سے تعلق رکھنے والے اس جوڑے کو ذبح کر دیا گیا تھا جو چند دن پہلے سوات آئے تھے، شاید ان کو لگا ہو گا کہ ان کے اپنے ان کو جینے نہیں دیں گے لیکن کیا ہوا، ان کی جان کے دشمن سوات بھی پہنچ گئے اور ان کو مار کر ہی چھوڑا۔

میرے کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنے بڑوں کی مرضی کے بغیر گھر سے بھاگ کر نکاح کرتے پھریں لیکن یہ ضرور کہنا چاہتی ہوں کہ چھوٹے اکثر ایسی غلطی اسی صورت میں کرتے ہیں جب ان کے بڑے ان کی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ الٹا انا اور غیرت کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے پسند کی شادی کو!

لڑکوں کی بات تو چلو پھر بھی کبھی نہ کبھی مان لی جاتی ہے کہ ٹھیک ہے لڑکا ہے، خیر ہے، کرا لیتے ہیں اس کی مرضی سے اس کی شادی لیکن اگر لڑکی کسی لڑکے کو ناپسند کرتی ہے اور اس بات کا اظہار بھی کرتی ہے کہ اس کو کوئی اور پسند ہے تو بس وہ لڑکی سب کی نافرمان بن جاتی ہے، اس کے اس اظہار کو غیرت سے جوڑ دیا جاتا ہے، اس کو بے حیا اور خراب لڑکی کے طعنے دیئے جاتے ہیں اور اس پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور اس کا باہر جانا بھی ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے۔

ایسے واقعات تو آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں جب پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں کو مار دیا جاتا ہے لیکن یہاں ایک واقعے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں جس نے مجھے بہت افسردہ کر دیا تھا۔

یہ جولائی 2020 کی بات ہے۔ ایک لڑکا لڑکی کو ان کے گھر والوں نے نہ صرف اس بات پہ قتل کیا کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے بلکہ ان کو بغیر جنازہ کے دفن بھی کر دیا گیا تھا، ہم لوگ خود ہی لوگوں کو قصوروار ٹھہرا کر سزا بھی دے دیتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ان کی توہین کرتے ہیں۔

ہمارے ملک اور خاص طور پر خیبر پختونخوا میں ہر سال سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے جن میں سے اکثریت کو پسند کی شادی پر ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا۔

ہم وہ لوگ ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ہم نے تعلیمی اداروں کو بھی بند کر دیا ہے۔ محبت سے ہم کیوں اس قدر خوفزدہ ہیں۔ اصل میں ہم نے محبت کو شاید سمجھا ہی نہیں ہے۔ چلو یونیورسٹی کو تو آپ نے بند کر دیا ہے لیکن ایسا کر کے کیا آپ لوگوں کے دلوں سے محبت کو نکال سکیں گے یا لڑکوں اور لڑکیوں کو آپ دور کر پائیں گے؟ آج کل تو ڈیجٹیل ٹیکنالوجی کا دور ہے، ہر کسی پاس سمارٹ فون موجود ہے اور یونیورسٹیوں سے باہر بھی وہ مل سکتے ہیں۔

میرے خیال میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی بجائے اگر ہم اپنے طلباء کی تربیت ایسے انداز سے کریں کہ وہ اپنے اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں، ان کو اپنی مرضی سے جینے کا حق دیا جائے، بڑے ان کی بات سنیں تو یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔

محبت سے جیئیں اور دوسروں کو بھی محبت سے جینے کی اجازت دیں، بڑے اگر چھوٹوں کے جذبات کو سمجھیں اور چھوٹے بڑوں کے وقار کو تو بہت سارے مسائل اور برائیاں اس معاشرے سے ختم ہو سکتی ہیں، پھر ہمیں نہ تو اس ویلنٹائن کی ضرورت ہو گی اور نہ ہی ہم اس سے خوفزدہ ہوں گے کہ محبت بانٹنے کے لیے ایک دن مختص کرنا بھی محبت کے ساتھ زیادتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button