ویلنٹائن ڈے: افسوس! مجھ بے چاری کو کبھی کسی نے پھول پیش نہیں کیا
سلمیٰ جہانگیر
ویلنٹائن ڈے میرے لئے بہت خاص اور اہم دن ہے۔ ہر سال اسی دن یعنی 14 فروری کا شدت سے انتظار ہوتا ہے کہ کب آئے گا۔ اور پھر یوں ہوتا ہے کہ یہ دن بھی باقیوں کی طرح آ کر گزر جاتا ہے۔ سارا دن اسی انتظار میں گزرتا ہے کہ اگر یہ واقعی پھول دینے کا دن ہے تو مجھے بھی کوئی اس دن پھول دے گا/دے گی مگر افسوس اتنی عمر گزرنے کے بعد بھی کسی ایک نے بھی یہ غلطی نہیں کی اور مجھ بے چاری کو کبھی کسی نے پھول پیش نہیں کیا۔ اور دن گزرنے کے بعد پشتو کا یہ محاورہ میرے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے کہ "نہ یار لرو او نہ د ګل طمع کوو” یا پھر
”څه مى په ھغه پسرلی
چه نه مي غوا څرې نه څښې”
(یعنی جب میری گائے بچھڑے ہی نا چر رہے ہوں تو اس بہار کا کیا کر لوں گا/گی)۔
کل پشاور یونیورسٹی کا جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن دیکھا جس میں 14 فروری کو یونیورسٹی بند کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہ نوٹیفیکیشن دیکھ کر میرا تو دل باغ باغ ہو گیا اور شکر ادا کیا کہ اچھا ہوا، اگر ہمیں پھول دینے والا کوئی نہیں تو ان کو بھی منانے کا حق نہیں۔
کچھ دن پہلے کسی سے اس حوالے سے بات کر رہی تھی اور مندرجہ بالا بات بتائی تو ان کا رویہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ میں نے کہا، ویلنٹائن ڈے یعنی محبت کا دن ہے، ابھی بات پوری ہوئی نہیں تھی کہ اس نے کہا، "ارے نہیں نہیں! یہ تو بے حیائی کا دن ہے، ہمیں حجاب کا دن منانا چاہیے کیونکہ یہ دن تو برے لوگ مناتے ہیں، توبہ توبہ! گناہگار اور بے شرم لوگ ہی اس دن کو مناتے ہیں جو نا اپنی عزت کا خیال رکھتے ہیں نا اپنے والدین کا۔ معاشرہ اس کی کبھی اجازت نہیں دیتا۔”
اگر معاشرے کی بات کی جائے تو بہت سے ایسے نکات ہیں جو قابل بحث ہیں لیکن چونکہ یہاں بات ویلنٹائن ڈے کی ہو رہی ہے تو اس کو معاشرے کا ایک خاص طبقہ منفی لے رہا ہے، اگر ہم منفی پہلو کی بجائے مثبت پہلو پر بات کریں تو سب کو معلوم ہو جائے گا کہ ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔
اس دن ایک شوہر اپنی بیوی کو یا بیوی اپنے شوہر کو، بھائی بہن کو یا بہن بھائی کو، بھتیجا/بھتیجی پھوپھو کو یا بھانجا/بھانجی خالہ کو پھول دے سکتا ہے۔ اور ایک بیٹی اپنی ماں کی قبر پر پھول رکھ سکتی ہے۔ یہ تو محبت کا دن ہوتا ہے اور اس کو منانے سے کوئی بھی کسی کو نہیں روک سکتا۔
لیکن ہمارے ہاں عجب ہی منطق ہے۔ جب بھی کوئی محبت کی بات کرے تو اس پر بے حیا ہونے کا ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔ اسے بے شرم کا خطاب مل جاتا ہے۔ محبت کا نام لینے پر بھی پابندی لگ جاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا پر راج کرنے کے لئے دلوں کو جیتنا ہوتا ہے، اور اس کے لئے ضروری ہے کہ محبت پھیلائی اور بانٹی جائے۔
جب میں نے یہ بات کی کہ آج تک مجھے کسی نے پھول نہیں دیا اور میں اس انتظار میں ہوں تو کچھ لوگ کچھ اور ہی سمجھنے لگے۔ سب کا ذہن اتنی جلدی منفی تار ہی کیوں پکڑتا ہے۔ اس کا مطلب مثبت کیوں نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کو پھول دینا ہمارے ہاں ابھی تک حرام سمجھا جاتا ہے۔
غیرشادی شدہ تو ایک طرف، یہ دن منانے کی اجازت تو ہم اس کے شرعاً حقداروں کو بھی نہیں دیتے۔ گو کہ محبت کے لئے کوئی دن مقرر نہیں لیکن اس دن کو منانا کوئی جرم بھی نہیں۔ ہمارے ہاں دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑانا سب سے پسندیدہ اور شوقیہ کام سمجھا جاتا ہے جس کو لوگ بخوشی کرتے ہیں لیکن محبت کرنا سب سے برا سمجھا جاتا ہے۔ ایک شوہر بیوی پر تشدد کرتا ہے تو سب کہتے ہیں ان کے گھر کا معاملہ ہے لیکن جب وہی شوہر اپنی بیوی کو پھول دیتا ہے تو سب کو بے حیائی اور بے شرمی پر مضمون یاد آج اتے ہیں۔ ہمیں اپنے منفی رویوں کو اپنی مثبت سوچ سے شکست دینا ہو گی۔