میں نے پہلی بار لاہور میں کیا دیکھا (دوسری قسط)
نیشنل ہسٹری میوزیم کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ آپ تحریکِ قیامِ پاکستان کے تمام سنگ ہائے میل بچشمِ خود ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ایسی بہت سی نادر تصاویر اور اشیاء یہاں موجود ہیں جو تاریخ کو زندہ کر کے آپ کے سامنے لے آتی ہیں۔ (گذشتہ سے پیوستہ)
شاہی قلعہ:۔
نیشنل میوزیم جاتے ہوئے لاہور میں منتظر ہمارے گائیڈ، میرے دیرینہ دوست ضیاء الدین مجھے شاہی قلعہ میں جلد از جلد لے جانے پر اصرار کر رہا تھا کیونکہ سردیوں میں شام 5 بجے کے بعد داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہم نے شاہی قلعہ کا رخ کیا۔ ضیاء الدین مجھے مسلسل اس حوالے سے معلومات دے رہا تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ مغلیہ دور کے ورثے یعنی شاہی قلعہ دیکھنے کا موقع ملا تھا لیکن اس کی بیرونی حالت دیکھ کر منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے کہ یہ تو کھنڈر معلوم ہو رہا ہے۔ کاش! اس آثارِ قدیمہ کا خیال رکھا جاتا۔ کافی طویل راستہ پیدل چلنے کے بعد ہم شاہی قلعے کے اندر پہنچے تو وہاں سب سے پہلے جس عمارت پر نظر پڑی اس میں تعمیری کام جاری تھا جس کے بعد ہم ایک طویل گھاٹی سے ہوتے ہوئے آخرکار قلعے میں پہنچ گئے، جہاں چند قدم کے فاصلے سے توپیں موجود تھیں جو اس زمانے میں دفاع کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔
شاہی قلعہ کی تعمیر کے حوالے سے مختلف مبہم حکایات موجود ہیں۔ تاہم 1959 کی کھدائی کے دوران میں جو محکمہ آثارِ قدیمہ نے دیوان عام کے سامنے کی، اس میں محمود غزنوی 1025 کے دور کا سونے کا سکہ ملا۔ دیگر شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر آبادی محمود غزنوی کے لاہور فتح کرنے سے بھی پہلے تقریباً 1021 میں موجود تھی۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ اس قلعہ کی ازسرِنو تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں لہذا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتا ہے۔
قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، شاہی باورچی خانہ، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ اس کو کئی دہائیاں قبل عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں پر ہزاروں ملکی و غیرملکی سیاح چلے آ رہے تھے۔ بہت زیادہ رش تھا۔ چار سو سال قبل تعمیر ہونے والی اس آبادی کے ایک ایک حصے کو دیکھ کر سب محو حیرت ہو جاتے۔
ہمارے دیگر ساتھیوں، جن میں محترم نورخان انصاری و دیگر اساتذہ کرام شامل تھے، قلعے میں گھومتے گھومتے بہت تھک چکے تھے مگر میرا گائیڈ و دوست ضیاء الدین مجھے مسلسل یہ کہہ کر تقویت بخشتا کہ یار تم تو یہاں پہلی بار آئے ہو یہاں تو دیکھنے کو اور بہت کچھ باقی ہے۔ ہم ساتھیوں سے الگ ہو کر جیل کا نظارہ کرنے گئے اور پھر قلعے کی مغرب جانب گئے جہاں قلعے کے اوپری حصے سے نیچے شہر کے ساتھ ساتھ سورج کے ڈوبنے کا خوبصورت نظارہ بہت واضح طور پر کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے قلعے کے اس مقام سے ڈوبتے سورج کو کیمرے کی آنکھ سے قید کر لیا اور شہر کے بے ہنگم ٹریفک کا کچھ دیر تک نظارہ کرتے رہے۔
اس قلعہ کو دیکھنے کیلئے آنے والے سیاحوں خصوصاً طلباء کو ان کی دلچسپی کی کئی چیزیں یہاں مل سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ صرف بحیثیت طالب علم ہی یہاں آئیں، اپنی فیملی کو لائیں اور اپنے بچوں کو بھی بتائیں کہ مغل بادشاہوں نے برصغیر پر کس شان و شوکت اور دبدبہ کے ساتھ حکومت کی اور فن تعمیر پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔
بادشاہی مسجد:۔
شاہی قلعہ کی سیر سے فراغت کے بعد بادشاہی مسجد کا رخ کیا۔ بادشاہی مسجد بھی مغلیہ دور میں اورنگزیب عالمگیر نے بنوائی تھی جو مغلیہ دور کی شان ہونے کے ساتھ ساتھ لاہور کی پہچان بھی ہے۔ بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔
مسجد میں شام کے وقت لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا لیکن رش کے باوجود بھی وہاں سکون کی فضا کا راج تھا۔مسجد کی بیرونی دیواروں پر بہت محنت سے نقش و نگار کیا گیا ہے۔ مسجد کے ہر کونے میں مربع شکل کا ایک مینار ہے جس کے ساتھ سرخی مائل پتھر سے بنا برج اور سفید سنگ مرمر کا گنبد ہے۔ آپ جیسے ہی مشرقی دروازہ سے داخل ہوتے ہیں تو وسیع صحن آپ کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ شاہ جہاں کے زمانے میں تعمیر ہونے والی مساجد کی طرح اس مسجد کی نماز گاہ صحن سے اونچی رکھی گئی ہے۔ اس عظیم الشان مسجد کو دیکھنے کے لیے روزانہ سیکڑوں سیاح دور و نزدیک سے آتے ہیں۔ سرخ و سفید پتھروں سے تیار کردہ اس عالی شان مسجد کو دیکھنے والے مغل فن تعمیر کے اس شاہکار کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بادشاہی مسجد میں کچھ وقت گزارنے کے بعد اسی کے احاطے میں قائم مزارِ اقبال پر حاضری دی اور قومی شاعر کے لیے فاتحہ پڑی۔
لبرٹی چوک، پیکیجز مال لاہور:
مغل بادشاہوں کی یادگاروں سے فراغت کے بعد رات ایک بجے تک پیدل ضیا الدین کے ہمراہ آوارہ گردی کی۔ یہاں کی مختلف تاریخی گلیوں، عمارات اور حکومتی منصوبوں کو قریب سے دیکھا۔ اگلے دن عصر کو ملاقاتوں سے فارغ ہوئے تو لاہور کے اس تاریخی چوک گئے جہاں سے عمران خان، تحریک لبیک کے خادم حسین رضوی، آزادی پسند تحریکوں کے رہنماؤں سمیت ہر بڑے احتجاجی جلسوں و تحریکوں کا آغاز ہوتا ہے۔ لاہور میں مقیم اپنے دوستوں ارشاد خان، عبداللہ اور ضیا الدین کے ہمراہ لبرٹی چوک و لبرٹی مارکیٹ گئے۔ یہاں پر لبرٹی مارکیٹ کے مشہور کوئٹہ ٹی کیفے میں چائے کی میز پر ہمارے میزبان ابوبکر ماموند نے اس علاقے کی نوعیت، لاہور میں تعمیر و ترقی اور تاریخ پر بریفنگ دی۔
کوئٹہ ٹی کی چسکیاں اور ابوبکر کی دلچسپ گفتگو درمیان میں چھوڑ کر ہم پیکجز مال دیکھنے روانہ ہوئے۔ راستے میں ارشاد اور عبداللہ نے ہمیں پیکج مال کے بارے میں بہت زیادہ تعریفی کلمات گوش گزار کیے مگر جب تک ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا نہ تھا یقین کہاں آنے والا تھا۔ پیکج کو دیکھ کر پہلی نظر میں ہی اس کی چمک سے ہماری آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ہم نے اسلام آباد کا سینٹورس مال بھی دیکھ رکھا تھا مگر یہ دنیا بہت الگ تھی۔ پیکجز مال لاہور، پنجاب، پاکستان میں ایک شاپنگ مال ہے۔ یہ پاکستان کے سب سے بڑے مالز میں سے ایک ہے۔ یہ والٹن روڈ پر واقع ہے۔ یہ پیکجز لمیٹڈ کی ملکیت ہے۔ ہم نے اس کے تقریبا اکثر حصوں کو دیکھا۔ پاکستان میں خلیجی و یورپی ممالک کے مثل اس مال کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔ پیکجز مال لاہور کی خوبصورتی میں بہترین اضافہ ہے۔
یہاں سے فارغ ہو کر باتوں باتوں میں ارشاد خان اور عبداللہ ہماری ارادے جان چکے تھے۔ ارشاد خان لاہوری مرچوں والے اور چٹ پٹی کھانوں سے تنگ آنے والے مہمانوں کیلئے شینواری دنبہ ہوٹل میں قبائلی و پختون ڈشوں سے تواضع کا ارادہ کر چکے تھے۔ یہاں اصلی شنواری کا مزہ و ذائقہ محسوس ہوا۔ لاہور میں پختون کمیونٹی کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کیلئے بھی یہ ایک بہترین پوائنٹ ہے۔ لاہور کے دیگر یادگار کھانوں کے علاوہ اصلی بٹ کڑاہی اور بندو خان ہوٹل لبرٹی مارکیٹ کا ناشتہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ (جاری )