خاتون کے سر میں کیل کس نے ٹھونکی، میڈیل رپورٹ نے پھر یہ سوال کھڑا کر دیا
فیاض خان
پشاور: خاتون کے سر میں کیل والے معاملے میں نیا موڑ، میڈیکل رپورٹ نے پولیس اور خاتون کے شوہر دونوں کے دعوؤں کی تردید کر دی تاہم خاتون کے سر میں کیل کس نے ٹھونکی، یہ گتھی تاحال سلجھ نا سکی۔
محولہ بالا معاملہ کے حوالے سے سامنے آنے والی میڈیکل رپورٹ کے مطابق خاتون نفسیاتی مریضہ نہیں، تھوڑی بہت ڈپریشن کا شکار تھیں (جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ)، حال ہی میں ان کے والد کا انتقال ہوا تھا۔
میڈیکل رپورٹ سانے آںے کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی یا حسب سابق اس معاملے کو دبانے کی اک بار پھر کوشش کی جائے گی کیونکہ اس ضمن میں ذکرہ شدہ بنیادی سوال کے علاوہ بھی کئی طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں؟ مثلاً یہ کہ خاتون کو ٹریٹ کرنے والا ڈاکٹر کہاں گیا؟ اس کیس میں کس کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
یاد رہے کہ رواں ماہ کی 8 تاریخ کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں نیورو ٹراما کے ریزیڈنٹ نیورو سرجن ڈاکٹر حیدر سلمان کے پاس ایمرجنسی میں ایک زخمی خاتون لائی گئیں جن کے سر سے خون بہہ رہا تھا، خاتون کے سر کا معائنہ کیا گیا تو کیل زخم کے اندر پیوست نظر آیا اور چوٹ بھی گہری تھی۔
ڈاکٹر حیدر کے مطابق خاتون نے پہلے اسے حادثہ قرار دیا مگر ان کے اصرار پر خاتون نے انکشاف کیا کہ یہ کیل ان کے پیر نے ٹھوکی ہے تاکہ اولاد نرینہ یعنی بیٹا پیدا ہو۔ خاتون کے مطابق ان کے پڑوس میں ایک اور خاتون کے ساتھ بھی پیر نے یہی عمل کیا تو اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا۔
ڈاکٹر حیدر نے مزید بتایا کہ خاتون تین ماہ کی حاملہ تھی اس لئے خاتون نے پیر کے کہنے پر یہ اقدام اٹھایا کیونکہ خاتون کو خوف تھا کہ کہیں بچی کی پیدائش پر اس کا شوہر اسے چھوڑ نہ دے۔
ڈاکٹر حیدر اور ان کی ٹیم نے سرجری کے بعد ڈیڑھ انچ کا کیل سر سے نکالا مگر خوش قسمتی سے کھوپڑی کی ہڈی محفوظ تھی۔
ترجمان لیڈی ریڈنگ ہسپتال محمد عاصم نے بتایا کہ آپریشن کے بعد مریضہ کو فوراً اس کے گھر والے اسے لے گئے اس لئے اس بارے میں مزید معلومات موجود نہیں ہیں۔ دوسری جانب پولیس کے پاس بھی ایسی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی اور نہ شکایت درج ہوئی ہے۔
گورنمنٹ سپرئیرسائنس کالج میں شعبہ اسلامیات کے چیئرمین مفتی صبغت اللہ نے اس فعل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں ایسی بدعت کے لئے کوئی گنجائش نہیں، مفتی صاحب نے بتایا کہ اولاد نرینہ کے نام پر جعلی عاملوں نے اپنا کاروبار چمکایا ہوا ہے جس کا دین سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔
اس کے دو روز بعد خاتون کے شوہر کا بیان سامنے آیا تھا، شوہر کے مطابق خاتون ذہنی مریضہ ہے جبکہ اس کے سر میں کیل جنات نے ٹھونکا ہے۔
کیس میں مشکل صورتحال اس وقت سامنے آئی جب مذکور خاتون کے حوالے سے ہسپتال کے پاس ریکارڈ موجود تھا نا پولیس کے پاس، تاہم گزشتہ روز سی سی پی او عباس احسن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے اور متاثرہ خاتون کے خاندان کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔
بعدازاں ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نے خاتون کے شوہر صابر اور ان کے دو بچوں کے ہمراہ پریس کانفرس میں کرتے ہوئے بتایا کہ ہسپتال کے ریکارڈ میں کوئی پتہ درج نہیں تھا (جس پر) نادرا سے خاندان کی شاخت کے لیے رابطہ کیا گیا، شوہر نے دو شادیاں کی ہیں، پہلی بیوی سے آٹھ اور دوسری بیوی سے تین بچے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مریضہ خاتون کے تین بچے ہیں، جس میں دو بیٹے بھی شامل ہیں، خاتون دماغی مریضہ ہے اور 2017 سے دماغی مرض کا علاج کر رہی ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس حوالے سے مختلف قسم کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، سوشل میڈیا صارفین کے مطابق اس اہم کیس میں اب تک تین قسم کے موقفات سامنے آئے ہیں، پہلے بتایا گیا کہ خاتون کی اولاد نرینہ نہیں، چار بیٹیاں ہیں اور ایک پیر کے کہنے پر اس نے اپنے سر میں کیل ٹھوکی ہے، پھر کہا گیا کہ خاتون ذہنی مریضہ ہے اور اس نے خود اپنی یہ حالت کر رکھی ہے جبکہ اب کہا جا رہا ہے کہ یہ کارستانی جنات کی ہے۔
بعض صارفین کی نظر میں کیس میں سامنے آنے والی نئی پیش رفت یا اپنایا جانے والا موقف اس عامل یا پیر کو بچانے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اس کیس میں ہسپتال اور پولیس پر بھی قسم قسم کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اصل صورتحال کیا ہے، امید ہے کہ جلد یا بدیر یہ بھی سامنے آ جائے گی۔