”اس کرہ ارض پر صرف ایک سورج، ایک چاند اور ایک لتا ہے”
فرمان عاقب خان
6 فروری 2022 کی سب سے بڑی خبر کوئی سیاسی خبر نہیں تھی بلکہ ملکۂ آواز لتا منگیشکر کے انتقال کی خبر تھی۔ ہر چینل اور سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر، ہر طرف یہی خبر گردش کر رہی تھی۔
ہمیں بھی لتا منگیشکر کی آواز بہت پسند ہے۔ ملک کے وزیر اعظم سے لے کر فلم انڈسٹری کی نامور ہستیوں نے لتا جی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کسی وقت مرحوم اداکارہ نرگس نے کہا تھا کہ ‘مجھے ان جذباتی گیتوں کو گاتے ہوئے جو لتا منگیشکر کی آواز میں ہوتے ہیں، آنکھوں میں گلیسرین ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔’
آج لتا جی کے چلے جانے کے بعد ہمیں یاد آتا ہے کہ موجودہ دور میں فلمی دنیا میں اردو زبان کا جادو جگانے والے گیت کار گلزار نے لتا جی کے بارے میں کہا تھا کہ ‘لتا منگیشکر کی آواز ہمارے عہد کا ثقافتی عجوبہ اور مظہر ہے۔ یہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ ہم کم از کم ایک بار ان کی آواز نہ سنتے ہوں۔’ مشہور فلمی شاعر اور اردو بولنے کے اپنے منفرد انداز کی وجہ سے معروف فلمی نغمہ نگار جاوید اختر نے کہا تھا کہ ‘اس کرہ ارض پر صرف ایک سورج، ایک چاند اور ایک لتا ہے۔’
لتا دیدی کی آواز کا جادو برصغیر ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنا اثر دکھاتا تھا۔ مشہور عالمی موسیقار مینوہن نے لتا منگیشکر کے بارے میں کہا تھا کہ ‘میں اپنی وائلن پر آپ کی حیرت انگیز گائیکی کو بار ِدگر تخلیق کرنے کی صرف کوشش ہی کر سکتا ہوں۔’
ایک زمانہ لتا کا مداح تھا لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ استاد سلامت علی خان کی دیوانی تھیں۔ استاد سلامت کو اپنے عہد کا تان سین مانا جاتا ہے۔ انہوں نے (لتا جی نے) اپنی زندگی میں کبھی شادی نہیں کی تھی۔ ان کے جانے سے آج ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ ہم نے سوچا کہ دیکھیں، اردو کے شاعروں نے کس طرح اس عظیم گلوکارہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ آئیے، ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلے ہماری نظر پڑی شاعر عوام مرحوم حبیب جالب کی نظم پر جو انہوں نے لتا منگیشکر کے لیے اس وقت لکھی جب وہ حیدرآباد جیل میں قید تھے۔ انھوں نے لکھا:
تیرے مدھر گیتوں کے سہارے
بیتے ہیں دن رین ہمارے
کیا کیا تو نے گیت ہیں گائے
سُر جب لاگے، من جھک جائے
تجھ کو سن کر جی اٹھتے ہیں
ہم جیسے دکھ درد کے مارے
تیرے مدھر گیتوں کے سہارے
بیتے ہیں دن رین ہمارے
اس سے بہتر خراج عقیدت کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اب بات کرتے ہیں مجروح سلطانپوری کی جو کئی دہائیوں تک فلم انڈسٹری میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ مجروح سلطانپوری کی اس نظم پر جو انہوں نے کئی دہائیوں پہلے لتا منگیشکر کے بارے میں لکھی تھی۔ ظاہر سی بات ہے اس وقت لتا بھی حیات تھیں اور مجروح بھی۔ لتا منگیشکر نے مجروح سلطانپوری کے تحریر کردہ ہزاروں گیتوں کو اپنی آواز سے سجایا ہے۔ ان میں زیادہ تر نہایت کامیاب گیت ہیں اور آل ٹائم ہٹ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ مجروح کی اس نظم میں چھ بند ہی۔ ہر بند دو اشعار پر مشتمل ہے۔ ہم طوالت کی وجہ سے پوری نظم نہیں نقل کر رہے ہیں بلکہ صرف منتخب اشعار درج کر رہے ہیں۔
پھر بھی کیا کم ہے جہاں رنگ نہ خوشبو ہے کوئی
تیرے ہونٹوں سے مہک جاتے ہیں افکار مرے
میرے لفظوں کو جو چھو لیتی ہے آواز تری
سرحدیں توڑ کے اڑ جاتے ہیں اشعار مرے
جس گھڑی ڈوب کے آہنگ میں تو گاتی ہے
آیتیں پڑھتی ہے سازوں کی صدا تیرے لیے
دم بدم خیر مناتے ہیں تری چنگ و رباب
سینۂ نَے سے نکلتی ہے دعا تیرے لیے
موجودہ دورکے شعراء کو بھی لتا جی کے جانے کا بہت افسوس ہوا۔ نسیم فائق کہتے ہیں:
اب یہ موضوعِ بحث ہے خوش نوا کس کو کہوں
عندلیبانِ چمن کی ہم نوا کس کو کہوں
گیت اور سنگیت کی دل کش فضا مغموم ہے
میں لتا منگیشکر جیسی لتا کس کو کہوں
مشہور مزاحیہ شاعر الطاف حسین شاداب بیدھڑک مدراسی جیسے زودگو شاعر نے بھی فوراً اپنی عقیدت کا اظہار ان اشعار کے ذریعے کیا:
فخر وطن تھی اور سہانی بلبل ہندوستان لتا
سرگم غزلوں اور بھجنوں کا گیتوں کی سرتان لتا
روتی ساری انڈسٹری ہے سارا جگ ہے گریہ زار
سرتاپا تھی محبت ہر دم نفرت سے انجان لتا
مزید شاعر ایسے ہوں گے جو یا تو اپنا خراج عقیدت پیش کر چکے ہوں گے یا کریں گے لیکن وقت کی نزاکت کی وجہ سے ہم اس مضمون کو یہیں روکتے ہوئے دوبارہ اس عظیم گلوکارہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔