لائف سٹائلکالم

سفارش اور ہم۔۔۔۔ یہ تو جیسے ہمارا محبوب مشغلہ ہو!

ماخام خٹک

کہتے ہیں کہ وہ کام پیسہ بھی نہیں نکال سکتا جو تعلقات اور جان پہچان سے بہ آسانی نکل جاتا ہےـ پیسے کے بل بوتے سے کام نکالنے کو رشوت اور جان پہچان سے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا نام سفارش ہےـ

ہمارے ہاں آج کل سفارش اتنی عام ہے کہ خواص بھی اس عامیانہ طرز زیست سے بھرپور استفادہ کرتے ہیںـ خواص کے اس عامیانہ طرز زیست کا مظاہرہ بھی خاص انداز سے ہوتا ہےـ وہ سفارش بھی لگاتے ہیں تو کسی اعلی و بالا جاب کے لئے، کسی اعلی و بالا کالج، یونیورسٹی میں بیٹا بیٹی کے داخلے کے لئے، کسی بزنس کے اجازت نامے یا کسی پٹرول پمپ یا سی این جی پمپ کے پرمٹ یا وزیر مشیر بننے یا کسی غبن یا بڑا ہاتھ مارنے کی پاداش میں پکڑے جانے یا نام آنے پر اس سے چھٹکارہ پانے کے لئے، کسی ٹی وی، فلم میں اداکاری یا صداکاری کے لئے یا اسی طرح کے دیگر امور وغیرہ وغیرہ کے لئےـ

لیکن غریب یا متوسط طبقے کے لوگ بھی اس سلسلے میں ان سے کم نہیں اور سفارش اور تعلقات کے لئے ایسے ایسے کاموں اور جگہوں کو متعارف کرواتے ہیں کہ بندہ ہکا بکا رہ جاتا ہےـ عام بندہ اگر کسی بھائی بند یا کسی چھوٹے کو تندور سے روٹی لانے کے لئے بھی بھیجتا ہے تو اسے تاکیداً کہتا ہے کہ ادھر میرا نام لینا اچھی اور گرم گرم روٹیاں دے دے گاـ اسی طرح اگر کسی بچے یا بھائی کو کسی نائی کے پاس بال بنانے کے لئے بھی بھیجتا ہے تو اسے زور دے کر بولتا ہے کہ ان کو کہنا کہ فلاں کا بیٹا یا بھائی ہوں اچھے سے بال بنا دے گاـ اسی طرح اگر عام آدمی کی بیوی سبزی والے کے پاس پالک یا مولی گاجر لینے جاتی ہے تب بھی شوہر ضرور بولے گا نذیرے کو بتانا فیضی کی بیگم ہوں تازہ اور کڑک کڑک مولی گاجر دے دے گاـ

ہمارے بار روم میں ایک وکیل صاحب کی چائے بڑی مشہور ہے، وہ جب بھی ویٹر کو آرڈر دیتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ یہ ضرور بولتا ہے کہ کاؤنٹر پر بتانا فلاں صاحب کی چائے بنا کر دیں، ویٹر بچارہ بھی سر ہلاکر چلا جاتا ہے حالانکہ اج تک ہمیں یہ بات پتہ نہیں چلی کہ یہ فلاں صاحب کی چائے میں خاص کمال کیا ہے کیونکہ جب بھی چائے آئی ہے وہی پرانی اور گزشتہ سے پیوستہ انداز اور ذائقے کی چائے ہم خاموشی سے پی لیتے ہیں۔ گو کہ وہ بیچ بیچ میں چسکی لینے کے بعد تواتر سے بولتے ہیں چائے اچھی ہے ویٹر میرا بولتا ہے تو کاؤنٹر والا یا مالک میری بڑی عزت کرتا ہے وہی چائے بناتا ہے جو میں بولتا ہوں۔

ایک اور صاحب اس طرح سے اپنی حیثیت یار دوستوں پر منواتا ہے کہ جہاں کہیں بوتل شوتل پلاتے ہیں تو بوتل منگوانے کے بعد وہ بوتل فٹ سے واپس کروا دیتا ہے کہ یہ دو نمبر بوتلیں ہیں لے جا لے جا ایک نمبر بوتلیں لے آـ ویٹر بھی یک دم ساری بوتلیں لے جاتا ہے اور تھوڑی دیر بعد اسی شکل کی اور اسی سائز اور ذائقے کی اور بوتلیں آ جاتی ہیں جسے یہ بول کر منظور کر لیتے ہیں کہ یہ ہوئی نا بات یہ ایک نمبر بوتلیں ہیں۔ ذائقہ بتاتا ہے کہ یہ اسی کمپنی کا مال ہے۔

بالکل بعینہِ ہم ایک دوسرے پر سلام بھیجتے رہتے ہیں کہ فلاں کو میرا سلام کہنا وہ خود سمجھ جائے گا۔ فلاں کو فلاں واقعہ یاد دلانا فوراً سمجھ لے گا۔ فلاں کو یہ اشارہ کرنا اسی وقت سمجھ جائے گا۔ فلاں سے میری فون پر بات کروانا باقی کام میرا ہے اور اس طرح کی مزید مثالیں ہم آئے دن سنتے رہتے ہیں۔ داخلے میں سفارش، نقل میں سفارش، میرٹ ڈی میرٹ میں سفارش یہ تو جیسے ہمارا محبوب مشغلہ ہو۔ رشوت اگر پیسہ ہے تو سفارش ویسا ہے لیکن ایسا بھی ویسا نہیں کہ اس کو ہلکا سمجھا جائے، ہر سفارش سفارش ہے اب یہ عوامی اور عامیانہ لبادہ اوڑھ چکا ہے۔ لوگ اگر ایک طرف نذیرے اور فیضی کے ناموں کا نام سفارش کے لئے استعمال کرتے ہیں تو دوسری طرف وہی لوگ ان ناموں کی لاج بھی رکھتے ہیں۔

اقبال شاہ ایڈووکیٹ پیشے کے لحاظ سے وکیل اور سندھ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ شعر و ادب سے بھی علاقہ ہے اور ماخام خٹک کے قلمی نام سے شاعری کے علاوہ مختلف اخبارات و رسائل کے لئے بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button