خالدہ نیاز
میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے لے کر اب تک کشمیریوں کی آہ و پکار، آزادی دو کے نعرے، روتی بلکتی خواتین اور ان پر ہونے والے مظالم ہی دیکھے ہیں۔ ہمارے ہاں کشمیریوں کے لیے ایک دن بھی مخصوص ہے یعنی آج کا دن، پانچ فروری، جب ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جاتی ہے کہ ہم سب ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف دن منانے سے اور جذبات سے بھرپور تقریروں سے کشمیریوں کو ان کا حق، حق خودارادیت، مل جائے گا؟
ویسے افغانستان اور کشمیری خواتین میں مجھے کافی مماثلت دکھائی دیتی ہے کیونکہ افغان خواتین ہوں یا کشمیری، ان کا دکھ اور درد ایک جیسا ہے، اپنے پیاروں کو کھونے کا۔ میں نے دیکھا ہے کہ افغانستان کی خواتین اور وہاں پر ہونے والی لڑائی، جانی اور مالی نقصان کے حوالے سے کسی نہ کسی حد تک بات ہوتی ہے کہ افغانستان میں ظلم ہو رہا ہے لیکن کشمیر اور کشمیری خواتین کے لیے شاید ہی کسی نے بھرپور آواز اٹھائی ہو۔
اگر دیکھا جائے تو افغانی اور کشمیری خواتین میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ اگر ایک طرف افغانی خواتین کئی دہائیوں سے جاری جنگ میں اپنے بیٹے، بھائی، باپ اور شوہر کھو چکی ہیں تو کشمیری خواتین کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، وہاں بھی آزادی حاصل کرنے کے لیے کئی ماؤں نے اپنے لخت جگر، کئی سہاگنوں نے اپنا سہاگ، کئی بہنوں نے اپنے بھائی اور کئی بیٹیوں نے اپنے والد کو کھویا ہے لیکن ان کی آوازیں نہ تو کسی کو سنائی دے رہی ہیں اور نہ کوئی سننا چاہتا ہے۔
افغانستان میں جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے وہاں خواتین کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے کیونکہ ان کو نہ تو تعلیم کا حق دیا جا رہا ہے اور نہ دوسری بنیادی سہولیات کا البتہ سابق صدر اشرف غنی کے دور حکومت میں خواتین کی زندگی قدرے بہتر ضرور ہوئی تھی لیکن ان کے جاتے ہی ان کی حالت پھر ویسی ہو گئی جیسے پہلے تھی۔
اب آتے ہیں کشمیری خواتین کی جانب، بات یہاں ختم نہیں ہوتی کہ کشمیری خواتین کو بے آسرا کیا جا رہا ہے اور ان کے مردوں کو بے دردری سے قتل کیا جارہا ہے بلکہ ان کی عصمت دری بھی جاری ہے اور انسانی حقوق کے علمبردار ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، پتہ نہیں کیوں عالمی طاقتیں ایک مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں ناکام ہیں؟
کتنا مشکل ہوتا ہے جب آپ کے پیاروں کو بغیر کسی وجہ کے قتل کر دیا جاتا ہے اور ان کی لاش واپس بھیج دی جاتی ہے، ان ماؤں پہ کیا گزرتی ہو گی جب ان کے پیاروں کی لاشیں ان کے سامنے پڑی ہوں گی، ان کو اپنے دشمن کا بھی پتہ ہو لیکن چاہ کر بھی وہ ان سے بدلہ نہ لے سکتی ہوں، جب ان خواتین سے ان کے بچے پوچھتے ہوں گے کہ ہمارے بابا کہاں ہیں تو کیا، اور کیسے جواب دیتی ہوں گی وہ، جب بچیاں اپنے والد کو صرف تصویروں میں دیکھتی ہوں گی تو ان کی ماؤں پہ کیا گزرتی ہو گی؟
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، کچھ کو قتل کر دیا جاتا ہے کئیوں کو غائب بھی کر دیا جاتا ہے اور ان کے پیارے ان کی یاد میں سسکیاں بھر بھر کر وقت گزار رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب آخر کب تک چلتا رہے گا؟
میں نے چند روز قبل دیکھا کہ افغان سنگر آریانہ سعید نے یورپی پارلیمنٹ میں افغان خواتین کے حوالے سے آواز بلند کی کہ کس طرح طالبان کے آنے سے افغان خواتین بے یارو مددگار ہو گئی ہیں، ان کے حقوق کو سلب کر لیا گیا ہے، مجھے اچھا لگا کہ چلو کوئی تو ہے جو ان خواتین کے حق کے لیے بڑے بڑے فورمز پر آواز اٹھا رہا ہے۔ آریانہ سعید نے انسانی حقوق کے سوئے ہوئے علمبرداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برداری نے افغان خواتین کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے لیکن ابھی بھی وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں اور ان کو اس ضمن میں کام کرنا چاہیے کیونکہ اگر ابھی بھی کچھ نہ کیا گیا تو ان خواتین کی حالت بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔
آریانہ کو دیکھ کر ویسے خیال آیا کہ کتنا ہی اچھا ہو گا جب کشمیری خواتین کے حقوق کے لیے بھی کوئی آواز اٹھائے گا اور دنیا کو بتائے گا کہ بس اب بہت ہو چکا کشمیر اور کشمیری خواتین کو اپنے حقوق دیئے جائیں، ان کو اس طرح سے جینے کا حق دیا جائے جس طرح وہ رہنا چاہتے ہیں، جو کہ ان کا بنیادی حق ہے۔ کہا تو بہت جاتا ہے کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اس کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، آزاد اور خودمختار طریقے سے لیکن بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے طاقت کے نشے میں چور حکمران ان چھوٹے چھوٹے لوگوں کو اپنی مرضی سے جینے بھی نہیں دیتے۔ اب بس بہت ہو گیا کشمیریوں کو بھی جینے کا حق ملنا چاہیے اور انسانی حقوق کے خوابیدہ علمبرداروں کو خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔