خیبر پختونخوا میں پولیو مہم آج بھی منفی افواہوں کی زد میں کیوں؟
ناہید جہانگیر
پولیو کے خلاف افواہوں اور غلط معلومات کی وجہ سے کچھ شرپسند پولیو مہم پر مامور عملے کو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے، گزشتہ سال پولیو مہم کے دوران 12 پولیس اہلکار قتل جبکہ سال 2020 میں دو لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔
جنوری 2021 میں پولیو سے انکاری والدین یا انکاری سرپرست کی تعداد تقریباً 40 ہزار تک رہی جو دسمبر میں 20 ہزار تک تھی۔
دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے ایک اہلکار کے مطابق پولیو مہم میں اب تک جتنے بھی قتل ہوئے ان میں پولیو مہم کو ناکام بنانے کے لیے بہت کم جبکہ زیادہ تر خاندانی دشمنیوں یا تنازعات کی وجہ سے یہ واقعات پیش آئے۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نا کی شرط پر بتایا کہ جب بھی پولیو مہم ہوتی ہے مہم اور خاص کر ہیلتھ ورکرز کافی مشکلات سے دور چار ہوتے ہیں، ”والدین کیوں پولیو قطروں سے انکاری ہیں؟ اس لیے کہ وہ ایک تو حکومت یا حکومتی اداروں پر اعتماد نہیں کرتے، دوسری وجہ غلط معلومات اور افواہوں کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے گریز کرتے ہیں، اعتماد نا کرنے کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، ان میں سے ایک بہت بڑی وجہ بچوں کو پولیو قطرے دینے کے لیے والدین کو مجبور کرنا ہے، پولیس ساتھ لے جا کر دباؤ ڈالنا، بار بار گھروں میں جا کر پوچھ گچھ کرنا، لوگوں میں آگاہی نا ہونے کی وجہ سے شک میں مبتلا کر دیتا ہے۔”
ڈاکٹر کے مطابق جب بھی والدین یا عوام یہ سوال کرتے ہیں کہ پولیو قطروں میں کیا کیا چیزیں استعمال ہوئی ہیں، اس سوال پر بھی محکمہ صحت خاموش ہے، یہ خاموشی بھی ان کو شک میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ جو کہہ رہے ہیں سچ ہے، واقعی پولیو قطرے خطرناک ہیں۔
ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خیبر پختوںخوا کے زیادہ تر علاقے پسماندہ ہیں، لوگ بنیادی ضروریات جیسے پانی، بجلی اور پختہ روڈ جیسی سہولیات سے محروم ہیں، جب بھی خیبر پختونخوا میں پولیو مہم کے دن آتے ہیں لوگ بائیکاٹ کا اعلان کر دیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ بجلی، پانی فراہم کی جائے ورنہ وہ اپنے بچوں کو پولیو قطرے نہیں پلائیں گے۔
ان مختلف افواہوں اور شک کو کیسے دور کیا جائے، اس حوالے سے ڈاکٹر نے بتایا کہ لوگ جو سوال کرتے ہیں اس کا جواب ان کو ملنا چاہئے، یہ ان کا حق ہے، جہاں تک پولیو مہم میں قطرے پلانے پر زور کی بات ہے تو محکمہ صحت یا حکومت پر عالمی دباؤ ہے، دنیا میں سب ممالک سے پولیو ختم ہو گیا ہے جبکہ افغانستان اور پاکستان میں اب بھی وائرس موجود ہے، ”عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دباؤ بھی اس لئے ہے کہ یہ ایک وائرس ہے جو دیگر ممالک میں سفر کی وجہ سے دوبارہ منتقل ہو سکتا ہے، جب تک پاکستان اور اففانستان سے بھی مکمل طور پر پولیو کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا عالمی دباؤ رہے گا۔”
دوسری جانب آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری کے مطابق گذشتہ سال ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے 48 پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ 46 افراد زخمی ہوئے، 12 پولیو کے مہم کے دوران ہر مہم میں ایک، دو اور تین پولیس اہلکاروں نے شہادتیں دیں۔
خیبر پختونخوا پشاور شہر کی عائشہ کو بھی اس ڈر سے پولیو قطرے نہیں پلائے گئے کہ کہیں وہ شادی کے بعد کبھی ماں نا بن سکے، جب وہ 2 سال کی تھیں تو ان کو سخت بخار ہوا، ان کے کہنے کے مطابق والدین ان کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے، انجکشن لگانے کے بعد ان کا بخار تو اتر گیا لیکن وہ ہمیشہ کے لئے دونوں پاؤں سے معذور ہو گئیں۔
بچپن میں احساس کمتری کی وجہ سے پڑھ لکھ نا سکیں اب شادی کے بعد بچوں کی اس طرح دیکھ بھال نہیں کر سکتیں جس طرح ایک نارمل ماں کرتی ہے، ”شادی بھی ہو گئی، ماں بھی بن گئی لیکن ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئی ہوں۔” عائشہ نے بتایا۔
عائشہ کے مطابق والدین ان کو پڑھانا چاہتے تھے لیکن جب سے ہوش سنبھالا، احساس کمتری میں مبتلا ہوتی گئیں اور احساس کمتری نے ان کو تعلیم جیسے زیور سے محروم کر دیا۔
عائشہ کی شادی اپنے ہی چچا زاد سے کی گئی ہے، اب وہ 2 بچوں کی ماں ہیں جن کی دیکھ بھال ان کے لیے کافی مشکل کام ہے، وہ اس طرح اپنے بچوں کا خیال نہیں رکھ سکتیں جس طرح نارمل مائیں کرتی ہیں۔
ریحانہ جو پچھلے 22 سال سے پولیو ورکر کے طور پر کام کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ جب سے وہ یہ ڈیوٹی سر انجام دے رہی ہیں اس وقت سے اب تک پولیو مہم میں بہت فرق دیکھنے کو ملا ہے، ”شروع کے دنوں میں ہر کوئی پولیو قطرے آسانی سے پلاتا تھا، کوئی مسئلہ نہیں تھا، کوئی زیادہ بھی اعتراض کرتا تو یہی کہتا کہ حکومت غربت یا مہنگائی ختم کرے لیکن پھر بھی قطرے پلا دیتے پھر وقت کے ساتھ ساتھ کچھ افواہیں پھیلیں کہ پولیو سے بانجھ پن ہوتا ہے یہ غیرملکی ایجنڈا ہے جو نئی نسل کو تباہ کرنا چاہتی ہیں، اب حالات کافی خراب ہو گئے ہیں حکومت کی اتنی کوشش کے باوجود جب بھی پولیو مہم ہوتی ہے بعض والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے بالکل بھی انکاری ہو جاتے ہیں۔”
اس حوالے سے ریحانہ نے بتایا کہ بعض والدین اس لیے قطرے نہیں پلاتے کہ بچے بانجھ ہو جائیں گے یا وقت سے پہلے بالغ ہو جائیں گے، ”کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ لوگ جو بھوک سے مر رہے ہیں، مہنگائی، بے روزگاری ہے اس کی کوئی فکر نہیں بس پولیو کی فکر ہے، پاکستان میں اور بھی تو کافی بیماریاں ہیں نا کہ صرف پولیو، لیکن غیرممالک سے فنڈ لیے جاتے ہیں اور جانچ پڑتال کوئی نہیں کہ یہ ویکسین ٹھیک ہے بھی یا نہیں۔”
خیبر پختونخوا کے ای او سی کے مطابق پولیو مہم ناکام نہیں ہے لیکن اس کو ناکام بنانے کی کافی کوشش کی جاتی ہے، جو بھی ہدف ہے اس کو ہر مہم میں پورا کیا گیا ہے، جو والدین انکاری ہوتے ہیں ان کو ہر طرح سے منانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس سلسلے میں علاقے کے مذہبی رہنماؤں سمیت مشران، ملکان کی خدمات لی جاتی ہیں۔