سیاستکالم

دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف…!

سلطان شاہ

ٓاگلے کئی عشرے ہم نے ابھی فصل کاٹنی ہے، کسی کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں جب شاگرد پیشہ لوگوں کو دنیا بھر سے ایسی ہی فنڈنگ ہونے لگے گی جیسے ان سے قبل کی افغان انتظامیہ کو ہوتی رہی ہے اور تب پڑوسی ملک میں بہنے والی دودھ اور شہد کی نہروں سے ہم بھی استفادہ کریں گے تو اس خیال کو سنبھال کر رکھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ شاگرد پیشہ لوگوں کو فنڈنگ ملے گی تو اس شرط پر کہ وہ ہمارے لئے نئے پرانے مسائل کھڑے کرتے رہیں گویا انہیں اسی تنخواہ پر بھرتی کیا جائے گا جس کے لئے سابق افغان حکمران ہر خدمت بجا لانے کو تیار تھے تاہم اس لئے دلوں سے اتر گئے کہ تمام تر خرچ کے باوجود وہ ہمارے شاگردوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ثابت نہیں ہوئے۔ ادھر انکل سام نے ان کے سر سے دست شفقت ہٹایا ادھر وہ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نو دو گیارہ ہونے کا انتظام کرنے پر جت گئے، ایسے بزدلوں کی بجائے انکل سام نے اب بہادروں کو بھرتی کرنے کی پلاننگ شروع کر رکھی ہے، آہستہ آہستہ مگر اچھی منصوبہ بندی کے ذریعے، آپ دیکھیں گے کہ کس طرح امریکا بہادر اور اس کے نیٹو اتحادی ہمارے شاگردوں کو اپنے حلقہ درس میں لینے کے بعد ہمارے خلاف ہی استعمال کرنا شروع کر دیں گے، اس کے لئے ابھی سے شاگرد پیشہ لوگوں نے بھی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ سرحدی باڑ کو ہم لگانے اور وہ ہٹانے کے کام پر تل چکے ہیں کس کے لئے آسانیاں اور ہمارے لئے مشکلات کھڑی کرنے کا ارادہ ہے؟

یورپ سے ہو کر آنے والوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ہمیں تسلیم کرنے سے قبل اہل مغرب اور ان کا سرپرست امریکا کچھ مزید شرائط منوانا چاہتے ہیں، تسلیم کرنے کے عوض جو شرائط نامہ پیش کیا جا سکتا ہے اس کے ذریعے ملکی سیاسی انتظام میں طالبان کو کھلی چھوٹ دینے کے ساتھ ساتھ کچھ غیرسیاسی شخصیات کو ایسے ہی انتظامی نوعیت کے اہم ترین عہدوں پر بٹھایا جا سکتا ہے جیسے ہمارے ہاں عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندوں کو لا بٹھایا گیا ہے اور جتنی بھی مالیاتی پالیسیاں بنتی ہیں ان میں ان مالیاتی اداروں کی کھلی مداخلت اب ڈھکی چھپی بات ہی نہیں ہے، آپ اور میں یہ بھی جانتے ہیں کہ پھر ان ہی پالیسیوں کے اثرات ہر شعبہ حیات کی ترجیحات پر کیسے مرتب ہوتے ہیں تو جناب کچھ عرصے کی بات ہے جب ہمارے پڑوس کے شاگرد لوگ فنڈنگ اور اپنا آپ منوانے کے عوض جس شرائط نامے پر دستخط کریں گے وہ ہمارے لئے ایسے ہی مسائل کھڑے کرے گا جو سابق افغان حکومت کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے۔ یقین نہیں آتا تو اپنے شاگردوں کے عزائم دیکھ لیجیے، کبھی باڑ تو کبھی ڈیورنڈ لائن کو نہ ماننے کی زبانی کلامی دھمکیاں نہیں دی جا رہیں بلکہ عملی طور پر باڑ گرا کر اپنا زور بازو آزمانے کی نئی مشق شروع کر دی گئی ہے۔ اس مشق ستم میں شدت آنے کے قوی امکانات سرحد پار ہی سرحد پار زیرتربیت ہیں۔

گلے شکوؤں کی بات نہیں زمینی حقائق یہ ہیں کہ افغان سرزمین دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے بیانات میں تمام تر خلوص کم از کم ہمارے لئے نہیں ہے ہمارے لئے جلال آباد، کابل اور قندہار شوریٰ کی تیاریاں ہیں بالکل ایسے ہی جیسے ہم ان شاگردوں کے لئے کوئٹہ، پشاور شوریٰ وغیرہ کے الزامات دنیا بھر سے سنتے اور ان کی تردید کرتے رہے، یہ جو ہمارا سٹریٹیجک اثاثہ تھے وہ کسی اور کا اثاثہ بننے کی تیاری کر رہے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ افغانستان کے تمام مسائل چٹکی بجاتے اگر کوئی حل کر سکتا ہے تو وہ اڑوس پڑوس کے ممالک نہیں سات سمندر پار کے یورپی ممالک اور انکل سام کا دیس ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اب سرحد پار سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے والے بھی ان شاگردوں کے لئے اسٹریٹیجک اثاثہ بن چکے ہیں، انہیں پالنے پوسنے اور پروان چڑھانے سے لے کر لڑنے کی تربیت کے تمام مراحل میں وہ یک جان دو قالب ہو چکے ہیں، سوال ہی پید انہیں ہوتا کہ دونوں قطع تعلق کر کے ایک دوسرے کے خلاف مورچے سنبھال لیں بجائے اس کے صاف لگ رہا ہے کہ وہ ہمیں دبانے اور اپنی بات منوانے کے لئے اپنے اس اسٹریٹیجک اثاثوں کو گاہے گاہے استعمال کرتے رہیں گے، کیا آپ کو حیرت نہیں ہو رہی کہ ساڑھے پانچ ماہ بعد بھی ہم شکوہ کر رہے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، دریں چہ شک جناب
استعمال ہونے میں شدت کی بھی پیشن گوئی کی جا سکتی ہے، آپ نوٹ کر لیں دیار مغرب کے رہنے والے کابل کے شاگرد پیشہ لوگوں کے لئے جتنے نرم پڑتے جائیں گے ہماری مشکلیں اتنی بڑھتی جائیں گی، روس اپنے زخم سہلاتے ہوئے گیا ہے مرہم پٹی کے بعد اس کی جان سلامت کہاں رہی تھی اس لئے ریچھ نے پلٹ کر حملہ نہیں کیا تاہم انکل سام اور اس کے اتحادی اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے پوری پلاننگ پر لگ چکے ہیں، کھربوں ڈالر لٹانے کے باوجود ان کے دم خم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آپ نے کپتان کے منہ سے بھی اس کا ذکر سنا ہو گا کہ امریکا اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھ ہی نہیں رہا اس سے بدلہ لینے کے مواقع بھی تراش رہا ہے ایسے ہی اس کے نیٹو اتحادی بھی افغانستان کے معاملے پر اپنی تمام تر شرمندگی کا ماخذ پاکستان کو قرار دے رہے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں بھی ہم تمام تر مطالبات پورے کرنے کے باوجود اسی لئے پڑے ہیں کہ انکل سام کو ہم نے افغانستان کے محاذ پر وہ کمک فراہم نہیں کی تھی جس کا وہ تقاضا کرتے رہے تھے۔

کابل میں پاکستان ہو یا چین یا پھر روس ان کے سفارت خانے پندرہ اگست کے بعد سے کھول دیئے گئے تھے طالبان کی جانب سے اس کا رسمی طور پر خیرمقدم کافی سمجھا گیا اس میں گرم جوشی عنقا تھی اس کے مقابلے میں یورپی یونین نے بیس جنوری کو کابل میں اپنا مشن کھولا تو کابل کے نئے حکمرانوں نے اس کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا، اسی مشن کے کھلنے کے بعد طالبان کے لئے برسلز جانے کی راہ ہموار ہوئی، دنیا سے اپنا آپ منوانے کے لئے انہیں اچھی طرح ادراک ہو چکا ہے کہ دنیا فی الحال امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک کی تائید میں ہی انہیں تسلیم کر سکتی ہے اس لئے وہ ادھر ادھر یا اڑوس پڑوس کے ممالک پر اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنا آپ منوانے کے لئے صحیح جگہ کا انتخاب کر چکے ہیں، ان کے مالی مسائل ہوں یا تکنیکی مہارت رکھنے والی افرادی قوت جیسے معاملات انہیں امریکا اور یورپی ممالک ہی حل کر سکتے ہیں ان ہی ممالک سے تعلقات مضبو ط بنا کر ان لاکھوں افغانوں کی بھی طالبان حمایت حاصل کرنے پر توجہ دیں گے جن میں سے بہت سے یورپی ممالک اور امریکہ میں سیاسی و سفارتی اثرورسوخ کے باعث ان ممالک کی اہم ترین حکومتی شخصیات تک بھی رسائی رکھتے ہیں، اس کی مثال زلمے خلیل زاد ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ نرم پڑیں گے تو کن شرائط پر، خواتین اور دیگر انسانی حقوق کے احترام کی بات منوانا کوئی بڑی بات ہے ہی نہیں، اس سے بھی بڑے مطالبات افغانستان کے اڑوس پڑوس کی صورت حال سے جڑے ہوئے ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان ہو یا روس یا پھر چین تینوں ممالک کے ساتھ یورپ اور ان کا سرپرست امریکا حساب کتاب کی تیاریوں میں ہے اس لئے سرحد پار سے شاگرد پیشہ لوگوں نے اپنا حساب کتاب کھول لیا تو سمجھ لیں ہمارا ہتھیار ہم ہی پر دنیا آزمانے چل پڑی ہے۔ وہ کیا کہا ہے شاعر نے، ع
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف...!
پشاور یونیورسٹی سے شعبہ صحافت میں ماسٹر ڈگری لینے کے بعد گزشتہ سترہ برس روزنامہ مشرق کے ساتھ بیت گئے ہنوز اسی سے وابستہ ہوں۔ اردو ادب اور علاقائی و بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھتا ہوں، کتنی گہری یہ میں نہیں جانتا آپ بتائیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button