ماخام خٹک
سوشل میڈیا کا نام جس کسی نے بھی رکھا ہے بہت سوچ سمجھ کر رکھا ہے۔ اِدھر کچھ ہوا، اُدھر ویڈیو وائرل ہوئی اور چشم دید احوال آپ کو اس طرح بتاتے ہیں جیسے بندہ اُدھر خود موجود ہو۔ کیا جنگل کیا سمندر، کیا فضا کیا ہوا کیا زمین کیا مکین اور کیا انسان کیا حیوان سب بیک جبنش انگشت آپ کے سامنے۔ جیسا کہ انہی دنوں ایک ویڈیو کسی بندہ نواز نے پوسٹ کی ہے جس میں کچھ لوگ کتے لڑا رہے ہیں اور یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ کتے لڑتے لڑتے خاصے تھک چکے ہیں اور انسان ہیں کہ اس لڑائی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، کہ اسی دوران ایک گائے وارد ہوتی ہے اور بھاگ کر اس دونوں کتوں کو سینگوں سے مارنا شروع کرتی ہے اور جو کتا الگ نہیں ہوتا ہے اس کو دور تک بھگا دیتی ہے اور ساتھ ساتھ گائے کی غصیلی حالت دیکھ کر وہ لوگ بھی ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیتے ہیں جو کتوں کی اس لڑائی کے لئے وہاں جمگھٹا لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔
اب بظاہر یہ کوئی بڑا واقعہ نہیں لیکن غیرمعمولی ضرور ہے۔ اور غیرمعمولی اس لئے ہے کہ ایک جانور کسی دوسرے جانور پر ننگ و غیرت کرتا ہے، اس کو اس قبیح عمل سے روکتا ہے جس سے اور لوگ اور اس کے قبیل سے ہٹ کر مخلوق لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ گاٰئے کوئی ایسا جانور بھی نہیں ہے کہ اس کو زیادہ ہوشیار یا زیادہ طاقتور گردانا جاتا ہو لیکن وہ ایک ایسے عمل پر اتر آتی ہے کہ اس کو کتوں کی لڑائی کا یہ عمل اچھا نہیں لگتا اور کتوں سمیت ان لوگوں کو بھی ادھر سے بھگا دیتی ہے جو اس قبیح عمل میں شریک ہوتے ہیں۔
کسی نے اس ویڈیو کے نیچے کمنٹس میں لکھا ہے کہ انسانوں کو جانورں سے سیکھنا چاہئے۔ بظاہر یہ جملہ بہت فرسودہ، تکرار در تکرار کا مجموعہ اور پرانے انداز بیاں کا ایک پرانا مقولہ نظر آتا ہے لیکن چونکہ ایسے موقعے پر اس سے زیادہ برمحل کوئی دوسرا جملہ ہو ہی نہیں سکتا اس لئے اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پوری انسانی تاریخ لڑائی جھگڑوں سے عبارت ہے۔ روز اول سے لے کر تادم تحریر انسان اگر ایک جانب خود ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے یہاں تک آن پہنچا ہے تو دوسری جانب کبھی کتوں، کبھی مرغوں اور کبھی دوسرے چرند پرند کو لڑاتے لڑاتے شغل زیست کو یہاں تک دوام دیا ہے لیکن یہ کوئی پہلی مثال نہیں کہ انسان ایک گائے کے کسی اچھے عمل کی تقلید کرے۔
تاریخ گواہ ہے اسی حضرت انسان نے کبھی اپنی شکستوں سے مایوس ہو کر ایک نحیف اور لطیف چیونٹی سے فتوحات کا گر سیکھا ہے، کبھی شیر جیسے درندے کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر سمجھی، کبھی کسی انسان کو چالاکی کے خطاب اور لقب کو لومڑی کی چالاکی سے متشابہ کیا، کبھی یہی حضرت انسان کو بے وقوفی کے عمل کے سہارے کہوتے یا گدھے کی مانند گردانا گیاـ پرواز کی صورت میں شاہین عقاب اور شہباز سے مماثلت کے عمل سے گزارا گیا ہے، بے وفائی میں طوعا چشمی سے پکارا گیا ہے، الو تو ہمارا اگر محاورہ نہیں تو روزمرہ ضرور ہے، قربانی کا بکرا تو ہم روز بنتے رہتے ہیں، آستینوں میں سانپ تو ہم آئے دن پالتے رہتے ہیں، شتر کینہ اور شتر بے مہار تو ہم سماجی معاملات میں ہوتے رہتے ہیں، لمبے ریس کا گھوڑا تو جیسے ہماری تعریف کا ایک مدمقابل محاورہ ہو جو جب تک جملے میں استعمال نہ ہو اپنا معنی ہی کو دیتا ہے۔ کانوں پر جوں کا رینگنا تو جیسے ہماری بیداری کا استعارہ ہو، بلبل، پتنگا، بھنورا، کوئل، کونج کے بغیر تو جیسے ہماری شاعری نامکمل ہو، ماہی بے آب کی طرح تڑپنا تو جیسے ہم نے خشکی کے ہجو کرنے کے لئے خاص کیا ہو، مور اگر جنگل میں ناچتا ہے تو لازمی ہے کسی کو نظر کیسے آئے گا کیونکہ جنگل میں درخت شہر کی عمارتوں کی طرح قطار در قطار کھڑے ہوتے ہیں جو انسانی بصارت کے راستے میں ہمہ وقت حائل رہتے ہیں۔ ہاتھی کے دانت کھانے اور دکھانے کے لئے ہم ہی ایک دوسرے کو اپنے اپنے اعمال سے دکھاتے رہتے ہیں مگرمچھ کے آنسو تو ہم آئے دن روتے رہتے ہیں، برساتی مینڈک تو جیسے ہماری سیاست کا ایک مستعمل کوسنے کا مون سونی جملہ ہو، کوا اگر ہنس کی چال چلتا ہے تو اپنا بھی بھولتا جاتا ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ ہہی کوا تو تھا جب اولاد آدم میں سے قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو قابیل کو قبر کھودنے اور اس میں ہابیل کو دفنانے کا طریقہ اور سلیقہ سکھایا اور تب سے لے کر اب تک ہم نے زیادہ تر بطور انسان یہی کیا ہے۔ اگر کوے سے انسان سیکھ سکتا ہے تو گائے سے کیوں اچھے عمل کی تقلید کے آغاز میں عار محسوس کرتا ہے۔