کالم

دعوے کیا، حقائق کیا!

ساجد ٹکر

ان کا نعرہ تھا پاکستان کو "کرپشن فری” ملک بنانے کا، ان کا نعرہ تھا کرپشن کے خاتمے کا، ان کا نعرہ تھا لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کا، ان کا نعرہ تھا کرپٹ لوگوں کے احتساب کا اور ان کا نعرہ تھا غریب کی زندگی بدلنے کا۔ مسلسل ایک رٹ لگائی گئی کہ حکمران چور ہیں، ایک بیانیہ کھڑا کر دیا گیا کہ پاکستان میں اور کچھ نہیں بس صرف کرپشن ہو رہی ہے، ایک نعرہ لگایا گیا کہ سابق ساری حکومتوں نے ملک کو بے رحمی سے لوٹا ہے۔ ایک دعوی کیا گیا کہ یہ لوگ صادق و امین ہیں، ایک دعوی کیا گیا کہ نظام کو ٹریک پر لایا جائے گا اور ایک دعوی کیا گیا تبدیلی کا۔ جاننے والے جانتے تھے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے، کس لئے ہو رہا ہے اور کیونکر ہو رہا ہے۔ سب کو پتہ تھا کہ تبدیلی کا دعوی محض ایک دعوی ہے لیکن ہوا اتنی تیز تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ تجربہ ہوا چاہتا تھا تو ہو گیا لیکن ملک کا ہر شعبہ ایسا متاثر ہوا کہ پہلے کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

دعوی تو پچاس لاکھ گھروں کا تھا، ایک کروڑ نوکریوں کا تھا اور 100 دن میں نظام بدلنے کا تھا لیکن آج حکومت کے چوتھے سال میں بے روزگاری، مہنگائی، صنعت اور دیگر شعبہ ہائے جات کی تنزلی ہر ایک کے سامنے ہے۔ سبق مگر نہیں لیا گیا۔ کرپشن کی جو رٹ پہلے دن سے لگائی گئی تھی وہ جاری رہی، چور ڈاکو کہلانے کا جو بازار گرم کیا گیا تھا وہ رقصاں رہا، "نہیں چھوڑوں گا” کا جو ڈائیلاگ یاد کروایا گیا تھا وہ اسی ادائیگی اور زیر و بم کے ساتھ چلتا رہا۔ ڈالر اڑتا رہا مگر توجہ "این آر او نہیں دوں گا” کے نعرے پر دی گئی۔ تیل کی قیمتیں بڑھتی رہیں لیکن سارا زور "سب چور ہیں” کے نعرے پر دیا گیا۔ ملک عملاً آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں چلا گیا لیکن فوکس "یہ ٹرم بھی پورا کریں گے اور اگلی ٹرم بھی ہماری ہو گی” کے خواب پر رہا۔ آسان اور عام فہم سی بات ہے کہ جو قوم یا فرد اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے وہ ترقی کرتا ہے اور جو قوم یا فرد اپنی غلطی نہیں مانتا وہ غلط لفظ بن کر یا تو مٹا دیا جاتا ہے یا حذف کر دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ ہمارے حکمران اسی روش پر جا رہے ہیں کہ ہم نے ماننا ہی نہیں کہ ہم غلطی کر سکتے ہیں۔

عمران خان سے دو تین روز پہلے سوال و جواب کے ایک لائیو پروگرام میں سوال پوچھا گیا کہ ملک میں صدارتی نظام بارے آپ کیا کہیں گے تو جواب جو ہونا چاہئے تھا وہ تو ملنے سے درکنار لیکن اس سوال کے جواب میں جو باتیں وزیراعظم عمران خان نے کیں وہ ان کی شخصیت اور بیانیہ کو دیکھتے ہوئے غیرمتوقع تو نہیں تھیں لیکن حالات کو دیکھ کر اگر ان باتوں کا جائزہ لیا جائے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے کچھ بھی نہ سننے کی قسم کھائی ہے۔ سوال سیدھا سا تھا کہ آپ کا صدارتی نظام بارے کیا خیال ہے لیکن جواب ملا کہ میں ان لوگوں کے خلاف جنگ لڑنے آیا ہوں، یہ لوگ کرپٹ ہیں، چور ہیں، ڈاکو ہیں اور اسی طرح چلتے چلتے بات "گھٹیا” قسم الفاظ تک پہنچ گئی۔ سوال کیا اور جواب کیا۔ حالات کیا اور تیاری کیا۔ چیلنجز کیا اور ترجیحات کیا۔ اس قسم کے رویہ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ملک کی معیشت بیٹھ چکی ہے اور ترقی کا سفر رک گیا ہے۔ قرضے ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور مشکلات ہیں کہ عوام ہی پر پڑ رہی ہیں۔
کوئی مہنگائی کا رونا روئے تو حکومتی سقراط جواب دیتے ہیں کہ عالمی مسئلہ ہے، تیل کی قیمتوں پر کوئی سوال اٹھائے تو جواب میں عالمی قیمتیں بڑھنے کا بھاشن دیا جاتا ہے۔ ڈالر کی اونچی اڑان پر کوئی منہ کھولے تو بڑی ڈھٹائی سے جواب ملتا ہے کہ پچھلی حکومت نے مصنوعی طریقوں سے ڈالر کو کنٹرول کیا تھا۔ مطلب کچھ بھی۔

ایک طرف دعوی کیا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے اور دوسری طرف رونا رویا جاتا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے رات کو نیند نہیں آتی۔ گلہ ہے ان کو کہ ٹیم صحیح نہیں ملی لیکن ہر تین ماہ بعد اعلان کرتے ہیں کہ تین ماہ بعد حالات سنبھل جائیں گے۔ عالم تو یہ ہے کہ ان کی حکومت چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے لیکن حالات سنبھلنے کے بجائے بگڑتے ہی جا رہے ہیں۔

ابھی ان کی ترقی اور عوام کی طرز زندگی بہتر ہونے کے دعوے کی بازگشت فضاؤں میں ہی ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشل نے ان کے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔ ٹی آئی کے تازہ ترین رپورٹ (2021) کے مطابق پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں 140 ویں نمبر پر جا چکا ہے۔ پچھلے سال یعنی 2020 میں ہم 124ویں نمبر پر تھے یعنی پورے سولہ ہندسوں کی چھلانگ کے ساتھ اوپر آئے ہیں۔ 2019 میں یہ نمبر 120 پر تھا یعنی جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے، کرپشن کے میدان میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا مرکزی نعرہ ہی کرپشن کے خلاف تھا لیکن ان کی حکومت میں مسلسل ہر سال ملک عالمی سطح پر کرپشن کے حوالے سرخیوں میں آ رہے ہیں۔ پچھلی حکومت جس کے خلاف انہوں نے کرپشن کا بیانیہ اپنا کر میدان مار لیا تھا اس کی بات کریں تو 2013 میں جب ان کی حکومت بنی تو اس انڈیکس میں پاکستان 127 نمبر پر تھا اور جاتے جاتے وہ 2018 میں پاکستان کو 117 نمبر پر چھوڑ گئے تھے۔ یعنی اگر دیکھا جائے تو گزشتہ دس سالوں میں سب سے کم شرح کرپشن کا 116 (2016 میں) مسلم لیگ ن کے دور میں تھا اور ان ہی دس سالوں میں سب زیادہ شرح کرپشن کا یعنی 140 نمبر ان (پی ٹی آئی) کی حکومت میں ہے۔ یعنی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے دعوے کیا تھے اور حقائق کیا ہیں۔ ہم اگر آسان لفظوں میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے دعوؤں اور زمینی حقائق میں میل جول تو کیا دور دور کی دشمنی بھی نہیں ہے۔

جب کسی فیکٹری یا کارخانے کو کسی وجہ سے خسارے کا سامنا ہوتا ہے تو انتظامیہ بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کرانے کی کوشش کرتی ہے۔ پتہ کراتی ہے کہ مسئلہ کیا ہے، کہاں ہے اور کس وجہ سے ہے۔ لیکن یہاں تنقید کو دشمنی میں لیا گیا اور حکومت کی جانب سے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ ناقدین، تجزیہ کاروں اور صحافیوں کو بھی نشانے پر رکھا گیا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ حقوق دب گئے، شخصی آزادی سلب ہو گئی، میڈیا کو زنجیروں میں جکڑا گیا۔ ہم تو مٹی پاؤ پالیسی پر عمل کرنے والے لوگ ہیں اور ہر تنقید کو مخالفین کی سازش قرار دیتے ہیں لیکن ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل صرف الزام نہیں لگاتی اور نا ہی قیاس آرائیوں پر تکیہ کر کے رپورٹ جاری کرتی ہے۔ ٹھوس بنیادوں پر رپورٹ تیار کر کے جاری کرتی ہے۔ یہاں تک کہ ان عوامل کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کرپشن بڑھتی ہے۔ مثلاً اس نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کرپشن عالمی سطح پر مجموعی لحاظ سے نہ بڑھی ہے اور نہ کم ہوئی ہے تاہم کچھ ممالک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، میں بڑی چھلانگیں لگائی گئی ہیں اور اس کی کچھ وجوہات ہیں جو کہ کرپشن میں اوپر جانے والے ممالک میں مشترک ہیں جن میں کہ سماجی حقوق کی پامالی، میڈیا کی آزادی پر قدغنیں اور کمزور حکومتیں شامل ہیں۔ اب یہ تو ایک یونیورسل حقیقت ہے کہ جہاں تنقید نہیں ہوتی وہاں تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور کمزور حکومت کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن کرپشن کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔
جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ ہمارا وطیرہ رہا ہے کہ ہم اپنی غلطی کو آسانی سے تسلیم نہیں کرتے اور اسی لئے گمان اغلب ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ بھی مخالفین کا پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کر دے گی لیکن ان کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اسی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ جب پچھلی حکومتوں کے ادوار میں آتی تھی تو اس کی سب سے زیادہ تشہیر عمران خان ہی کیا کرتے تھے۔ خدارا کچھ تو سوچئے، دعوؤں سے آپ کو کوئی نہیں روکتا لیکن حقائق کو مسخ تو مت کریں۔

ساجد ٹکر پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ورکنگ جرنلسٹ اور کالم نگار ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ پشتو اور انگریزی میں بھی مختلف سماجی، سیاسی، تاریخی اور ادبی موضوعات پر مختلف اخبارات اور جرائد میں لکھتے رہے ہیں۔

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button