ضلع باجوڑ میں ہر سال 3 ہزار سے زائد طلباء میٹرک کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں، کیوں؟
زاہد جان
ضلع باجوڑ کی تحصیل خار علاقہ عنایت کلے کی رہائشی طالبہ مسماۃ حناء بی بی (فرضی نام) کو میٹرک کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی کیونکہ اُس کے علاقہ میں قریبی ہائیر سیکنڈری سکول یا گرلز کالج نہیں تھا۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں حناء بی بی کا کہنا تھا کہ باجوڑ کا واحد گرلز ڈگری کالج ہم سے 7.7 کلومیٹر دور ہے اور وہ بھی پبلک ٹرانسپورٹ سے دور ہے، ”میری خواہش تھی کہ تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کا نام روشن کر سکوں لیکن ہائیر سیکنڈری سکول اور کالج قریب نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم ادھوری رہ گئی، میری جیسی کئی لڑکیاں جو کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن باجوڑ میں ہائیرسیکنڈری سکولوں کی کمی اور کالجز کے نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے خواب ادھورے رہ گئے ہیں۔”
ضلع باجوڑ میں ہر سال تقریباََ تین ہزار سے زائد طلبہ و طالبات میٹرک کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ ضلع میں کالجز اور ہائیرسیکنڈری سکولز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے خصوصاََ لڑکیوں کیلئے بالکل بھی نہیں ہیں۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت محکمہ تعلیم باجوڑ دفتر سے حاصل کی جانے والی معلومات کے مطابق ضلع باجوڑ کے سرکاری سکولوں میں جماعت دہم میں داخل طلبہ و طالبات کی تعداد 2887 ہے جبکہ گیارہویں جماعت میں داخل ہو نے والے طلبہ و طالبات کی تعداد 2802 ہے۔ اسی حساب سے دیکھا جائے تو 85 طلبہ و طالبات داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
پرائیویٹ سکولوں سے میٹرک کے بعد فارغ ہونے والوں کی تعداد 3 ہزار سے زائد ہے اور اسی حساب سے تقریباََ 3 ہزار سے زائد طلبہ داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
باجوڑ کے صدر مقام خار میں قائم گورنمنٹ ڈگری کالج میں فرسٹ ائیر کے داخلوں میں 270 طلبہ کو داخلہ دینا تھا جبکہ 270 داخلوں کیلئے 1880 درخواستیں موصول ہوئی تھیں جس کے بعد 1610 طلبہ کو داخلہ نہیں ملا۔ یہ صورتحال دیگر دو کالجز اور ایک گرلز کالج میں بھی رہی۔ اکثر طلبا ء داخلہ نہ ملنے پر پشاور اور دیگر اضلاع جانے پر جبکہ غریب طلبہ تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
صوبائی حکومت اور محکمہ تعلیم باجوڑ کی جانب سے اس مسئلے کے حل کیلئے کئی بار دعوے کئے گئے کہ ہائیر سیکنڈری سکولوں کو نان ڈویلپمنٹ بیسز پر فعال کیا جائے گا تاکہ طلباء کو فرسٹ ائیر میں داخلے مل سکے لیکن ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل ہونے والے ڈیٹا میں معلوم ہوا کہ کوئی بھی ہائیر سیکنڈری سکول فعال نہیں کیا گیا بلکہ یہ سب جھوٹے دعوے اور وعدے تھے۔
ضلع باجوڑ میں ہر سال 49 سرکاری ہائی سکولوں اور 58 پرائیویٹ ہائی سکولوں سے ہزاروں طلبہ میٹرک پاس کرتے ہیں اور یہ تعداد 107 ہوتی ہے لیکن ان طلبہ کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے صرف چار ڈگری کالجز اور تین ہائیرسیکنڈری سکولز ہیں۔
ضلع باجوڑ میں لڑکیوں کے گرلز ہائی سکولوں میں سائنس ٹیچرز کی کمی ہے اور محکمہ تعلیم باجوڑ حکام کے مطابق ضلع بھر میں اس وقت 45 خواتین سائنس ٹیچرز کی ضرورت ہے۔
اس حوالہ سے جب باجوڑ سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخواہ کے صوبائی وزیر برائے زکواۃ و سماجی بہبود انورزیب خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ تعلیم کے میدان میں انقلابی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ میں رواں سال دو ہائیر سکنڈری سکول ڈویلپمنٹل بیسز اور چھ ہائیر سکنڈری سکولز نان ڈویلپمنٹل بیسز پر شروع کریں گے، اس کے ساتھ ساتھ تین ڈگری کالجز سمیت سترہ ہائیر سکنڈری سکولز ڈویلپمنٹل بیسز پر تعمیر کئے جائیں گے۔