ضلع کرم کے مگس بان ان دنوں پریشان کیوں ہیں؟
محمد داؤد خان
ضلع کرم کے مگس بان (شہد کی مکھیاں پالے والے) ان دنوں پریشان ہیں کیونکہ دہائیوں بعد ضلع کرم میں بے وقت سرد اور بارانی موسم نے مقامی طور پر شہد کی پیداوار کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔
کرم کے مگس بانوں کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران بارود کے بے تحاشہ استعمال اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے باعث شہد کی مکھیاں یہاں سے ہجرت کر گئی ہیں جس کی وجہ سے شہد کی پیداوار اور معیار دونوں متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ وقت بے وقت بارشوں اور شہریانے کے عمل (اربنائزیشن) کی وجہ سے بھی ضم اضلاع میں شہد کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو وسطی کرم کے قبیلہ علی شیرزئی سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ مستو نے بتایا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قدرتی سرحد، کوہ سفید (سپین غر) میں قدری طور پر پیدا ہونے والے شہد (جنگلی شہد) کو تلاشتے یا اس کا شکار کرتے ہیں، ”آج کل پہاڑون میں جنگلی شہد ملنا انتہائی دشوار ہو گیا ہے، مگس بانی روبہ زوال ہے۔”
پاراچنار کے پہاڑ کبھی شہد کی مکھیوں کے لئے قدرتی مسکن ہوا کرے تھے اور کرم کی آبادی کا ایک بڑی حصہ شہد کے کاروبار سے وابستہ تھا۔ (تاہم) مستو کی طرح کے دیگر لوگ اب پریشان ہیں، کبھی کا یہ منافع بخش کاروبار اب موسمی تبدیلی و دیگر متعلقہ عوامل کے باعث زوال پذیر ہے۔
متعلقہ خبریں:
چترال: کورونا وائرس اور شہد کا کاروبار
شہد کی مکھیوں کی ملکہ کیسے بنتی ہے؟
دوسری جانب اپر کرم کے مگس بان یہ شکایت کرتے پائے جا رہے ہیں کہ گزشتہ اک دہائی کے دوران پہاڑوں میں شہد کی مکھیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے تاہم وہ اس کی درست وجوہات سے لاعلم ہیں۔
کرم میں شہد کی پیداوار
مقامی کسان جنگلی مکھیاں پالتے ہیں کیونکہ ان کا شہد اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔ کرم کی مکھیاں چار قسم کا شہد دیتی ہیں۔
محکمہ سیری کلچر پاراچنار کے انچارج امجد حسین کے مطابق وہ مقامی مگس بانوں کے لیے تربیتئی سیشنز کا انعقاد کرتے ہیں۔ آر ٹی آئی کے تحت حاصل کی گئیں معلومات کے مطابق کرم کے مگس بان سالانہ تقریباً ایک ہزار کلوگرام شہد پیدا کرتے ہیں جس سے لاکھوں روپے کی آمدن حاصل ہوتی ہے۔
ضم اضلاع میں شہد کی پیداوار میں 40 فیصد کمی
دوسری جانب آل پاکستان بی کیپر ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ایسوسی ایشن کی جانب سے لگائے گئے تخمینہ کے مطابق ضم اضلاع میں شہد کی پیداوار میں 40 فیصد کمی آئی ہے۔ ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر شیخ گل باچا کے مطابق پاکستان میں شہد کے کاروبار سے ڈیڑھ لاکھ خاندان وابستہ تھے، ان میں مگس بان، دکاندار اور ایکسپورٹرز شامل ہیں، ”ضم اضلاع میں جنگلات کی کٹائی کے باعث مقامی کھیوں کی اکثریت انفیکشنز کے باعث مر گئی ہے اور جو زندہ بچی ہیں انہوں نے یہاں سے ہجرت کر لی ہے، اب مامی سطح پر اعلیٰ معیار کی شہد کے مقدار میں کمی آئی ہے۔”’
ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیر زمان نے بتایا کہ سلسلہ کوہ ہندوکش ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے بری طرح سے متاثر ہوا ہے، ”پچھلی ایک دہائی کے دوران فلورا شہد پیدا کرنے والی مکھیاں ضم اضلاع سے ہجرت کر گئی ہیں جس کی وجہ سے شہد کی پیداوار میں 40 فیصد کمی آ گئی ہے۔”
شیر زمان کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی اور فصلوں پر جراثیم کش سپرے کا بے تحاشہ استعمال مقامی مکھیوں کے لئے دو بڑے خطرات تھے۔
ایک محقق، ڈاکٹر حسین علی کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں کے اوقات متاثر ہوئے ہیں، اسی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے فلورل سیزن متاثر اور شہہد کی مکھیوں کا قدرتی مسکن تباہ/خراب ہوا ہے، ”اس کے علاوہ مقامی مکھیوں کے لئے جراثیم کش سپرے، کیڑے مار دوائیاں اور شہریانے کا عمل ابھرتے ہوئے خطرات تھے۔”
انہوں نے بتایا کہ مگس بانی کی تجارت سے وابستہ کئی مقامی افراد جنگلی شکار کرتے تھے، ”اس کا سٹینڈرڈ طریقہ کار یہ ہے کہ ست سردی میں آدھا شہد مکھیوں کی بقاء کے لئے چھوڑنا ہوتا ہے، اگر کوئی شکاری سارا شہد لے جائے گا تو ظاہر ہی بات ہے کہ مکھیاں موت کا شکار ہوں گی۔”
بلین ٹری ہنی پراجیکٹ
74 سالہ محبوب علی مقامی سطح پر مگس بانی کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر پر مکھیوں کے لئے قدرتی مسکن بنایا ہوا ہے، ”اپریل میں شہد کی مکھیاں کرم پہنچتی ہیں اور اکتوبر تک یہاں کے پہاڑوں میں قیام کرتی ہیں۔ سردیوں میں شدید موسم کے باعث یہ مکھیاں خیبر پختونخوا کے ذیلی علاقوں اور پنجاب کو ہجرت کر جاتی ہیں جس کی وجہ سے شہد کی مقامی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔’
دوسری جانب وفاقی حکومت ملک میں بلین ٹری ہنی پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے جس کے تحت حکومت مگس بانوں کو کاروبار میں توسیع کے لئے مالی و تکنیکی معاونت فراہم کرے گی۔
شیخ گل باچا کے مطابق حکومت اگر پڑوسی ممالک کے علاوہ شہد کی مقامی مکھیوں کو واپس لانا چاہتی ہے تو اسے اسے جنگلات کی کٹائی کے عمل کو واپس/ریورس کرنا ہو گا، ضم اضلاع میں بائیو ڈائیورسٹی (حیاتیاتی تنوع) کی بحالی اور شہد کی پیداوار میں اضافے کا یہی واحد قدرتی حل ہے۔”