اللہ میاں کے دربار میں پاکستان کی رپورٹ، فرشتے حیران کیوں؟
محمد فہیم
نقلِ کفر کفر نا باشد۔ امریکیوں کے ہاں اک لطیفہ مشہور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اک بار اللہ تعالیٰ دربار لگائے بیٹھے تھے، مختلف ممالک و علاقوں سے فرشتے آ آ کر رپورٹ دے رہے تھے۔ اک فرشتہ آیا کہ اللہ میاں! چین میں بہت بڑا زلزلہ آیا ہے، ہزاروں لوگ ہلاک اور عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کہا ٹھیک ہے۔
دوسرا آیا کہ یا اللہ! فرانس میں اک سخت قسم کا سیلاب آیا ہے جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے گیا ہے، سینکڑوں ہزاروں لوگوں کی جانیں بھی اس کی نذر ہو گئیں۔ اللہ نے فرمایا ٹھیک ہے۔
تیسرا فرشتہ آیا گویا ہوا کہ امریکہ میں خوفناک آندھی آئی ہے جس نے سب کچھ اڑا کے رکھ دیا ہے، کئی لوگ ہلاک تو کئی زخمی ہوئے۔ اللہ نے ایک بار پھر کہا ٹھیک ہے۔
چوتھا آیا اور بولا کہ یا اللہ! جاپان میں ایک شدید قسم کا طوفان آیا ہے، ہزاروں جاپانی اس کا شکار اور مختلف قسم کی تکالیف میں مبتلا ہیں۔ ٹھیک ہے، اللہ نے فرمایا۔ اسی طرح فرشتے مختلف علاقوں سے اسی قسم کی دردناک خبریں لاتے رہے جبکہ اللہ میاں ہوں، ہاں، اچھا میں جواب دیتے رہے۔ دربار جاری تھا۔
اتنے میں ایک فرشتہ وارد ہوا، (شکل و صورت سے بھی جو لاغر و کمزور قسم کا تھا) اور آتے ساتھ ہی کہا کہ یااللہ پاکستان۔۔۔ اللہ میاں (باوجود علیم و خبیر ذات ہونے کے) چونک گئے اور پوچھا، کیوں۔۔۔؟ کیا ہوا ہے پاکستان کو؟
دیگر فرشتے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ان میں سے ایک نے مودبانہ انداز میں پوچھا کہ یا الٰہی۔۔! یہ ماجرا کیا ہے؟ کچھ ہی دیر قبل چین، فرانس، امریکہ و جاپان اور اس طرح کے دیگر ممالک سے بڑی ہی دردناک قسم کی خبریں آتی رہیں اور آپ سنی ان سنی کرتے رہے لیکن جیسے ہی آپ نے پاکستان کا نام سنا، آپ نے انتہائی دلچسپی کا مظاہرہ کیا، ہمیں بھی بتایا جائے تاکہ حقیقت معلوم ہو۔
اللہ میاں نے فرمایا، میں جانتا ہوں کہ چین میں زلزلہ خواہ جتنا بھی ہولناک ہو، چینی اپنا بندوبست کر لیں گے، فرانس میں اگر سیلاب نے تباہی مچائی ہے تو فرانسیسی اپنی بحالی کے لئے کچھ نا کچھ کر لیں گے، امریکہ و جاپان میں آندھی و طوفان نے اگر نقصان کیا ہے تو وہ بھی اپنا انتظام کر لیں، اسی طرح کے دیگر ممالک بھی اس قابل ہیں کہ وہ درپیش مشکلات کا کوئی نا کوئی حل نکال لیں لیکن پاکستان، اور پاکستانی۔۔۔ ان کی فکر میں نا کروں تو یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے اور قسمت کو دوش دیتے رہیں گے یا میرے ہی حضور گڑگڑاتے رہیں گے کیونکہ ان کا واحد آسرا میں ہی ہوں۔
یہ لطیفہ آج کے اخبارات اور مرحوم رشید ناز کی رحلت اور ان کے جنازے میں شریک پشاور کے ایک اور سینئر اداکار نجیب انجم کے تاثرات پڑھ اور سن کر یاد آیا۔ ملک میں ایک طرف منی بجٹ کا شور ہے تو دوسری جانب کورونا کی نئی قسم (اومیکرون) سمارٹ لاک ڈاؤنوں اور اور طرح طرح کی پابندیوں کا باعث بنی اور بن رہی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ پاکستانیوں کی ایک واضح اکثریت پریشاں، موجودہ حکومت، اس کی پالیسیوں، بیانات و اعلانات بالخصوص کورونا اور اس کی وجہ سے عائد پابندیوں سے نالاں اور ان تمام پابندیوں کی صریح و کھلم کھلا خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ اول و آخر رب ذوالجلال کے حضور گریہ و زاری میں مصروف ہے۔ حق کی بات کی جائے تو یہ تاثر یا خیال اتنا غلط بھی نہیں کہ پاکستانیوں کا اللہ حامی و ناصر نا ہو تو یہ جائیں گے کدھر اور کریں گے کیا؟
اس وقت ملک میں مہنگائی زوروں پر ہے تو الٹا بے روزگاری کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے، کورونا تو اک بہانہ ہے، ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کی اس کے علاوہ بھی وجوہات ہیں۔ ملک میں ایک عرصہ سے ، بلکہ دیکھا جائے تو قیامِ پاکستان کے روز سے ہی یہ حال ہے، سیاسی عدم استحکام کی صورتحال جاری ہے، دور دور تک بہتری کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے الٹا اک بار پھر نظام کی تبدیلی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں حالانکہ اسی ”تبدیلی” کی خاطر ملک کے سابق حکمرانوں کا بوریا بستر گول اور موجودہ حکمرانوں کو اقتدار اس ”قوم” نے سونپا ہے لیکن اس ”تبدیلی” کی قیمت چکانے کے لئے حکمران تیار ہیں نا ہی عوام، لہٰذا نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
آج اس ملک کے حکمران پریشان ہیں۔ ملک کو درپیش مسائل سے زیادہ جنہیں نواز شریف کی واپسی کا غم کھائے جا رہا ہے۔ اسی لئے حکومت اور حکومتی عہدیداروں کی ساری توانائی نواز شریف اور ملک کے دیگر سابق حکمرانوں کے خلاف الزام تراشیوں پر صرف ہو رہی ہے۔ عوام بھی پریشان ہیں اور آٹا، گھی، چینی و دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے اور بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ یا کمیابی کا رونا رو رہے ہیں، ہر دوسرا تیسرا شخص شکوہ کناں ہے اور حکومت کی جانب سے کسی قسم کی قابل ذکر کارکردگی سے تقریباً مایوس!
اب سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنے عوام، اپنے فرد/افراد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی؟ کیا ہمارے عوام نہیں جانتے کہ کسی اتھارٹی یا حکومت کی عملداری کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا؟ کیا یہ دونوں نہیں جانتے کہ اصل تبدیلی کی ابتدا ذات سے ہوتی ہے، باالفاظ دیگر میں خود کو بدلنے کیلئے تیار نہیں ہوں لیکن سارے ملک، ساری قوم کا پانسہ پلٹنا چاہتا ہوں؟ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو آپ اپنی حالت بدلنے کی خواہاں نہیں ہوتی، اس کے لئے جتن نہیں کرتی، یہ ہم بڑے شوق سے کہتے اور سنتے بھی ہیں لیکن عملاً ہمارا حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس لئے امریکی اگر ہمارا تمسخر اڑاتے ہیں، تو ایسا کرتے ہوئے کیا وہ حق بجانب نہیں ہیں؟ اس سوال پر ہمیں غور اور اس کا قولاً، فعلاً یا عملاً جواب دینا ہو گا۔ ورنہ آج تلک، جگ ہنسائی ہمارا مقدر تو ویسے بھی ہے۔