مری واقعہ: سات بہنوں کا اکلوتا بھائی اپنے تین دوستوں سمیت سپرد خاک کر دیا گیا
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے یخ بستہ علاقے مری میں 8 جنوری کو سخت سردی سے مرنے والے 22 افراد میں ضلع مردان کے علاقہ تازہ گرام سے تعلق رکھنے والے سات بہنوں کا اکلوتا بھائی اسداللہ اتوار کو اپنے تین ساتھیوں بلال حسین، بلال اور سہیل کو اپنے آبائی گاؤں تازہ گرام مین سپرد خاک کر دیا گیا۔
ضلع مردان سے تعلق رکھنے والے اسداللہ کے چچازاد بھائی اشرف خان نے ٹی این این کو بتایا کہ اسداللہ کے والد بچپن میں وفات پاچکے ہیں اور وہ سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا جس نے ڈیڑھ سال قبل شادی کی تھی اور اب اس کا پانچ ماہ کی عمر کا ایک اکلوتا بیٹا بھی رہ گیا۔
انہوں نے کہا ” اسداللہ کے موت کے بارے میں ہمیں ایک رشتہ دار نے کراچی سے فون پر اطلاع دی اور کہا کہ گھر میں تب تک آپ نے کسی کو نہیں بتانا جب تک پوری تصدیق نہ ہوجائے مگر دوپہر کو ہمیں مصدقہ معلومات ملی کہ اسداللہ اپنے چاروں دوستوں سمیت اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں”۔
اشرف خان کہتے ہیں کہ چاروں نوجوان ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن میں دو میرے چچا زاد بھائی اور دو بھتیجے شامل تھے۔
اسداللہ کو اپنے چچا زاد بھائی سہیل کو اپنے آبائی گاؤں تازہ گرام میں اشک بار آنکھوں کے ساتھ سپردخاک کر دیا گیا۔
اسداللہ کے کاروباری دوست فیصل نے بتایا کہ ہم دونوں مردان میں سریا کے کاروبار میں شراکت دار تھے، کہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کئی بار مری گئے ہیں لیکن اس بار انہوں نے مجھے آگاہ کئے بغیر اپنے دوستوں کے ساتھ پروگرام بنایا۔
فیصل کا کہنا ہے کہ جیسے ہی انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے مرنے کی ویڈیوز دیکھی تو انہوں نے فوراً انکے موبائل فون پر کال کیا مگر کال کسی اجنبی شخص نے اُٹھایا اور کہا کہ وہ سردی کی شدت سے گاڑی کے اندر مر گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فوراً لاشیں وصول کرنے کیلئے مری جانے کیلئے رخت سفر باندھ لیا اور جیسے ہی اسلام آباد پہنچے تو سیکورٹی اداروں نے ہمیں آگے جانے سے روکا اور کہا کہ لاشیں آپ کو راولپنڈی کے کڈنی ہسپتال میں ملیں گے۔
فیصل کا کہنا ہے ” ہم مانتے ہیں کہ ایک ان کے دوستوں نے ایک ناگہانی حادثے کا سامنا کیا لیکن مری میں انتظامیہ نے چالیس ہزار گاڑیوں کی گنجائش کے باوجود ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں اور لاکھوں لوگ کیوں جانے دیا جو انکی غفلت کا واضح ثبوت ہے”۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ اب تک نہ انکے خاندان کے ساتھ تعزیت کیلئے کوئی صوبائی وزیر آئے ہیں اور نہ ضلعی انتظامیہ کا کوئی اہلکار۔
یاد رہے ہے کہ اتوار کو صوبہ پنجاب کے وزیراعلٰی عثمان بزدار نے مری جانے کے موقع پر جانبحق افراد کے لواحقین کے ساتھ فی کس آٹھ لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ اسکے ساتھ مری میں دو تھانوں اور دو پارکنگ پلازوں کی منظوری دی ہے۔
مری میں پش آنے والے واقعے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حکومت پر سخت تنقید جاری ہے جس میں پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی، ریسکیو 1122 اور ضلعی انتظامیہ پر سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اگر ان حالات میں متعلقہ ادارے لوگوں کو نہیں بچاسکتے تو پھر انہیں قائم رہنے کی ضرورت کیا ہے۔
ابتدائی رپورٹ
دوسری جانب سانحہ مری کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کردی گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ 7 جنوری کو مری میں 16 گھنٹے میں 4 فٹ برف پڑی، 3 جنوری سے 7جنوری تک ایک لاکھ 62 ہزارگاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق برفباری کے دوران گاڑیوں میں بیٹھے 22 افرادکاربن مونو آکسائیڈ سے جاں بحق ہوئے، 16 مقامات پر درخت گرنے سے ٹریفک بلاک ہوئی جب کہ مری جانے والی 21 ہزارگاڑیاں واپس بھجوائی گئیں۔ ابتدائی رپورٹ پروزیراعلیٰ نے مری میں گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کی آمد پر برہمی کا اظہار کیا۔