چارسدہ: سال 2021 میں پولیس کی کارکردگی کیسی رہی؟
جاوید محمود
ضلع چارسدہ پولیس نے سال 2021 کی سالانہ رپورٹ میں گزشتہ سال کی نسبت امن و امان کی صورتحال کو بہتر اور اطمینان بخش قراردیا ہے جبکہ تجزیہ کاروں نے جاری کردہ رپورٹ کو زمینی حقائق کے برعکس قرار دے کر کہا ہے کہ سال 2020 کی نسبت 2021 میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
چارسدہ پولیس نے منگل کو اپنی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سال 2021 میں انتہائی خطرناک 1570مبینہ ملزمان گرفتار کئے ہیں جن کے قبضے سے 141 کلاشنکوف، 4 ہزار336پستول، 25 دستی بم، 6راکٹ لانچر،اور200 ڈیٹونیٹرز سمیت 90 ہزار851 مختلف قسم کے ہتھیاروں کے کارتوس برامد کئے ہیں۔
پولیس کے مطابق امسال امن وآمان کی صورتحال بہتر اور اطمینان بخش رہی ہے اورعوام کی جان ومال کی تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے جبکہ تجزیہ کار ان دعوؤں کو زمینی حقائق کے برعکس سمجھتے ہیں۔
چارسدہ کے سینئر صحافی سبزعلی خان ترین نے پولیس کی رپورٹ کو صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دے کر کہا کہ سالانہ کارکردگی رپورٹ میں ان واقعات کا ذکر نہیں کیا گیا جن کا براہ راست معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ضلع چارسدہ میں گذشتہ سال کی نسبت منشیات فروشی اور بالخصوص آئس کے کا روبار میں اضافہ ہوا ہے جس کے واضح ثبوت روزانہ کی بنیاد پر پولیس کی جاری کردہ پریس ریلیزوں میں ملزمان کے خلاف ایف آئی آرز کی زیادہ تعداد ہیں، کہا کہ آفسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے ملزمان بری ہوجاتے ہیں۔
دوسری جانب پولیس کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ سال مجموعی طور پر تقریباُ 741 کلوگرام چرس، 124کلوگرام آئس, 46 کلوگرام آفیون،اور71 شراب کی بوتلیں برامد کی گئی ہیں لیکن جاری کردہ پریس ریلیز میں سال2020 اور 21 کی جرائم کا موازنہ نہیں کیا گیا ہے۔
سبزعلی خان نے پولیس کی سالانہ کارکردگی پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ مذکورہ رپورٹ میں موازنہ اسلئے نہیں کیا گیا ہے تاکہ پولیس کی ناقص کارکردگی اور غفلت کا پول نہ کھل جائے، اگر ادارہ اپنی کارکردگی کا موازنہ نہیں کرتا تواپنے ادارے کی طرف سے امن و امان کی صورتحال کو اطمینان بخش صورتحال کیسے قرار دے سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ سال 2021 میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور کہا کہ تھانہ مندنی میں مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی پر مشتعل مظاہرین تھانہ سمیت سات چوکیوں کو آگ لگا کر مسمار کردیا گیا اسی طرح گیدڑ کلی میں پولیس کے سامنے مشتعل لوگوں نے گھر میں گھس کر ایک شخص کو زندہ جلایا جس سے پولیس کی رٹ کا اندازہ ہوا۔
یاد رہے کہ ضلع چارسدہ کے علاقہ مندنی میں 28اکتوبر کو تھانہ مندنی پر مشتعل مظاہرین نے حملہ کرکے تھانہ سمیت سات چوکیوں کو جلایاتھا جس میں سرکاری گاڑیوں سمیت مال مقدمہ کی درجنوں گاڑیاں،موٹرسائکلزاور تھانے کا ریکارڈ جلایا گیا تھا جبکہ مظاہرین تھانے کے مال خانے سے سرکاری اور مال مقدمہ کا اسلحہ بھی ساتھ لے گئے تھے۔
اس حوالے سے جب 4 دسمبر کو ٹی این این نے چارسدہ پولیس کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اور ترجمان سے پوچھا کہ مذکورہ واقعہ میں کتنا نقصان ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس حوالے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اپنی رپورٹ تین دنوں میں منظر عام پر لائے گی مگر تاحال پولیس نے عوام کے سامنے کوئی رپورٹ پیش نہیں۔
اسی طرح اکتوبر میں پولیس کے سامنے علاقہ پلہ ڈھیری میں چند درجن افراد نے سلیمان نامی معذور شخص کے گھر پر حملہ کرکے اسے گھر کے اندر جلایا جس کے بھی اصل حقائق منظر عام پر لائے نہیں گئے۔
سینئر صحافی سبز علی خان کے مطابق گزشتہ سال پولیس کی جانب سے سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کے نام پر چند سو آپریشنز کئے گئے جس کا واحد مقصد افسران بالا کے آنکھوں میں دھول جھونکنا تھا جبکہ بعد میں پولیس کے عدم ثبوت کی وجہ سے ملزمان عدالتوں سے باعزت بری ہو رہے ہیں۔
اس حوالے سے چارسدہ کے سینئر صحافی خالد خان کا کہنا ہے کہ معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی اور آئینی حق ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ پولیس اس قسم کے حقائق اسلئے منظرعام پر لانے سے کتراتے ہیں تاکہ اس سے انکی غفلت واضح نہ ہوجائے۔
خالد خان کہتے ہیں کہ جب پولیس اپنے ادارے کے اندر اپنی خامیوں کا جائزہ نہیں لیتے تو تب ایسے واقعات رونما ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
انہوں نے پولیس کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعات کو دیکھتے ہوئے چارسدہ میں عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ یقینی طور پر محفوظ نہیں اور ہرشخص خود اپنی تحفظ کے بارے میں فکرمند ہے۔
خالد خان کا کہنا ہے "پولیس آپس کے تنازعات میں پکڑے ملزمان کو امن وآمان کی خرابی سے جوڑتے ہیں جوکہ سراسر غلط بیانی ہے کیونکہ دو فریقین کے درمیان تنازعہ ہوتا ہے جس کے اثرات معاشرے پر نہیں بلکہ چند ایک خاندان پر ہوتے ہیں”۔
ان کا دعویٰ ہے کہ چارسدہ میں موجودہ صورتحال میں پولیس کیلئے سب سے بڑا چیلنج منشیات کی سپلائی اور اسکی کم داموں مین فروخت ہے جس کی وجہ ضلع چارسدہ کیساتھ قبائلی ضلع مہمند کا منسلک ہونا اور وہاں سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں منشیات کی سپلائی ہے، کہتے ہیں "اسی نیٹ ورک کیساتھ پولیس کی بعض افسران ملے ہوئے ہیں”۔
چارسدہ پولیس ان الزمات کی تردید کر رہی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ منشیات کی فروخت اور سپلائی کی روک تھام کیلئے روزانہ کی بنیاد پر اپریشن کے ساتھ عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لئے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی ہے مگر ان کے ساتھ عوام کی حمایت ناگزیر ہے۔