ہمارا تعلیمی نظام: ہم اپنے پانچ قیمتی منٹ تو کیا اپنے بہت سے سال ضائع کر دیتے ہیں
رحمان شیر
کشتی ڈوب رہی تھی، اور اس میں موجود بیٹھے لوگ خوف و ہراس کا شکار تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا کریں۔ ان میں سے کچھ رو رہے تھے، کچھ دعا کر رہے تھے، لیکن اسی کشتی میں ایک لڑکا بڑے سکون کے ساتھ بیٹھا تھا اور کتاب پڑھ رہا تھا۔ کشتی بان اس کے پاس گئے اور اسے کہا کہ تمہیں اپنی زندگی بچانے کی کوئی فکر نہیں؟ کشتی تو پانچ منٹ میں ڈوبنے والی ہے تو اس لڑکے نے بڑے اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ اگر میری زندگی کے پانچ منٹ بھی باقی رہ جائیں تو میں ان کو بھی ضائع نہیں کروں گا۔
ہمارے ملک میں ہم اپنے پانچ قیمتی منٹ تو کیا بلکہ ہم اپنے بہت سے سال ضائع کر دیتے ہیں۔ اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا، نہ والدین نہ اساتذہ اور نہ ہی حکومت۔۔۔
ہمارے تعلیمی نظام میں اگر ایک بچہ امتحان میں کم مارکس لے لے تو اسے حوصلہ دینے کے بجائے ہم اسے بیکار اور بے وقوف سمجھتے ہیں اور اسے طعنے دیتے ہیں۔ والدین بچوں کو اس چیز کو پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں کہ جس میں وہ دلچسپی ہی نہیں لیتے اور اکثر اس میں فیل ہو جاتے ہیں۔
اس کی زندہ مثال آج کل کے نوجوانوں کی ہے کہ وہ بار بار میڈیکل اور انجینئرنگ ٹیسٹ میں فیل ہو جاتے ہیں۔ ایک تو ان کا وقت ضائع ہو جاتا ہے اور دوسرا وہ نفسیاتی مریض ہو جاتے ہیں۔ اور آخرکار وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اس لئے والدین کو چائیے کہ وہ بچوں کو دوران داخلہ مکمل آزادی دیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق فیلڈز منتخب کریں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کی سطح پر "کریئر کونسلنگ سنٹرز” قائم کرے تاکہ بچے مختلف فیلڈز کے حوالے سے رہنمائی حاصل کر سکیں اور وہ اپنے لئے بہترین فیلڈز منتخب کر سکیں۔