افغان مہاجرین کی آمد سے پشاور کو رہائش کے ساتھ ساتھ دیگر بڑے مسائل کا سامنا
سلمیٰ جہانگیر
"1980 میں شہر کی آبادی اتنی نہیں تھی نا ہی پشاور اتنا گنجان آباد تھا لیکن افغانستان پر روسی حملے کے بعد جب افغان مہاجرین نے پشاور کا رخ کیا تو چند ہی عرصے میں شہر کی آبادی اتنی بڑھی کہ رہنے کے لئے گھر کم پڑ گئے، اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک ایک گھر میں 4 ,5 خاندان رہنے لگے۔” ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں گزشتہ چار دہائیوں سے پشاور میں رہائش پذیر محمد کریم نے بتایا۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق پشاور شہر کی کل آبادی تقریباً 19 لاکھ 70 ہزار تھی جس میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ آبادی میں تبدیلی پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آج سے 40 سال قبل 1981 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق ملک کی 28 فی صد آبادی شہروں میں اور 72 فی صد دیہات میں رہائش پذیر تھی۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں محمد کریم نے بتایا کہ صوبے کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، مقامی آبادی کے علاوہ افغان مہاجرین کی صوبہ میں آمد سے کئی مسائل میں اضافہ ہوا جن میں رہائشی مسائل سرفہرست ہیں، پشاور شہر میں اپنے گھر کا حصول نہایت ہی مشکل مرحلہ بن چکا ہے، ”موجودہ دور میں اندرون شہر 2 مرلے مکان کی قیمت تقریباً 60 لاکھ سے لے کر 90 لاکھ تک ہے جبکہ شہر سے ملحقہ علاقوں میں 3 سے 4 مرلہ گھر کی قیمت 70 لاکھ تک ہوتی ہے۔ اسی طرح رہائشی پلاٹ کی قیمت میں بھی خاطر خوا اضافہ ہوا ہے، زیادہ آبادی کی وجہ سے صفائی کی صورتحال بھی ابتر ہو چکی ہے۔”
دوسری طرف شہر میں دن دیہاڑے چوریاں ہوتی ہیں جس کی بڑی وجہ دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگوں کا پشاور میں آباد ہونا ہے۔ جرائم پیشہ مہاجرین کے باعث معاشرے میں کرائم کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ملک کے امن وامان کی صوتحال پر اثر پڑ رہا ہے، مہاجرین کے باعث ملک میں دہشت گردی کے بڑے حادثات ہوئے جن میں ہزاروں افراد شہید اور زخمی ہوئے، گزشتہ تین برسوں کے دوران پشاور میں جرائم کی شرح میں 42.60 فیصد تک اضافہ ہوا جن میں چوری، ڈکیتی، قتل اور بھتہ خوری وغیرہ شامل ہیں۔
افغان کمشنریٹ کے ڈائریکٹر فضل ربی کے مطابق مئی 2021 سے اب تک تقریباً 33 ہزار افغان مہاجرین خیبر پختون خوا آئے ہیں، ان میں 27 ہزار مہاجرین کو SHARP نے رجسٹرڈ کرایا ہے جن میں 52 فیصد مرد اور 48 فیصد خواتین شامل ہیں۔
پشاور کے علاقے وزیرباغ سے تعلق رکھنے والے نذیر گل نے بتایا کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے کرایہ کے مکان میں رہ رہے ہیں، ”آج کل کرائے کے گھر کے حصول میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں اور اس کی سب سےبڑی وجہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد میں آبادی ہے جو اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان اور خاص کر پشاور میں رہائش پذیر ہیں، رہی سہی کسر خیبر پختون خوا کے دور دراز علاقوں کے لوگوں کی نقل مکانی نے پوری کر دی ہے جہاں کے باشندے نوکریوں کی تلاش میں پشاور آ کر آباد ہوئے ہیں۔”
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 14 لاکھ ہے جب کہ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں رہائش پذیر افغان باشندوں کی تعداد 24 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ۔ لیکن 2017 کی مردم شماری کے مطابق شہروں میں اب 36.44 فی صد جب کہ دیہات میں کم ہو کر 63.56 فی صد آبادی رہائش پذیر ہیں۔ مردم شماری کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گذشتہ مردم شماری کے مقابلے میں اب شہری آبادیوں میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے شہروں میں تقریباََ آٹھ کروڑ افراد مقیم ہیں۔
ان اعداد و شمار سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان میں دیہی کے مقابلے میں شہری آبادی کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
پشاور شہر کے رہائشی محمد علی پچھلے کئی سالوں سے پراپرٹی کا کاروبار کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ افغانی مہاجرین کی پاکستان آمد کے بعد پراپرٹی کی قیمتوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے، ”پشاور صدر کے علاقے میں 2 سال قبل ایک مرلہ زمین کی قیمت تقریباً 15 لاکھ سے 18 لاکھ تھی جو موجودہ برس بڑھ کر کافی زیادہ ہو گئی ہے، رواں برس ایک مرلہ زمین کی قیمت 30 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔”
پراپرٹی ڈیلر نے مزید بتایا کہ اندرون شہر علاقہ گلبہار میں ایک مرلہ زمین کی قیمت 2020 کے اوائل میں 25 لاکھ تھی جو کہ اب 40 لاکھ فی مرلہ ہے، پراپرٹی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانی لوگوں میں پاکستانیوں کی نسبت اتفاق کافی زیادہ ہے، وہ 3 یا 4 بھائی مل کر کروڑ دو کروڑ کے گھر بہ آسانی خریدتے ہیں اور پھر مل کر اتفاق سے رہتے ہیں، چونکہ شہری لوگوں میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا رواج کافی حد تک کم ہے اس لئے وہ چھوٹے یا کرایوں کے گھروں میں رہتے ہیں۔
پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے مطابق بڑھتی آبادی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے غیرقانونی و غیرمنظم ہاؤسنگ سکیمیں اور کمرشل پلازے زرعی زمین کا بڑا حصہ نگل رہے ہیں۔ افغان مہاجرین کی آمد، بڑھتی آبادی اور تیزی سے ختم ہوتی زرعی زمین کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ خیبر پختون خوا کہیں خوراک کے لیے دوسرے صوبوں پر انحصار نہ کرنے لگے۔