چترال میں کرش پلانٹس کی بندش سے سینکڑوں مزدور فاقہ کشی پر مجبور
گل حماد فاروقی
چترال میں قانونی طور پر کام کرنے والے کرش پلانٹس کو ایک بار پھر بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس سے وابستہ سینکڑوں مزدور بے روز گار ہوکر فاقہ کشی کا شکار ہوگئے ہیں بلکہ تعمیراتی کام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ سید خالد جان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے کرش پلانٹس کے مالکان اور اس میں کام کرنے والے مزدور نہایت مشکلات سے گزر رہے ہیں سب سے پہلے حکومت نے NOC کا مسئلہ پیدا کیا اور اس کے بعد ماحولیاتی ایجنسی اور محکمہ معدنیات نے کہا کہ اپنے پلانٹس کو آبادی سے دور منتقل کرے ہم نے لاکھوں روپے لگاکر کرش پلانٹوں کو ماحول دوست علاقے میں منتقل کیا اب ریور بلٹ یعنی دریا کے کنارے کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
حکومت کی جانب سے این او سی میں سختی پیدا کرنے کے باوجود سید آباد اور گہریت میں دو کرش پلانٹوں کو قانونی تقاضے پورے کرکے نو ابجیکشن سرٹیفیکٹ اور حکم حاصل کیا اس کے بعد دوسری سختی یہ آئی کہ دریا کا ملبہ استعمال نہ کیا جائے اور محکمہ معدنیات کے ڈایریکٹر جنرل نے سابقہ ڈی جی کی جانب سے جاری کردہ این او سی ماننے سے انکار کیا۔ حکومت ہر ہفتے یا ہر ماہ اپنے قوانین میں تبدیلی لارہی ہے جس سے ہم لوگ بہت بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان اہلکاروں کی نا اہلی کہ وجہ سے ہم لوگ نہایت مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرش پلانٹ میں بیس مزدور کام کرتے ہیں جبکہ اس سے صعنت سے وابستہ تعمیراتی کام کرنے والے مزدور، مستری، ٹھیکیدار اور مزدا گاڑی والے بھی اسی صعنت سے وابستہ ہیں جن کے گھر کا چولہا اس سے جلتا ہے مگر ان پلانٹوں کی بندش سے یہ مزدور لوگ بھی متاثر ہوہے ہیں اور سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ہونے والے تعمیراتی کام بھی متاثر ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی ادارے میں قانون سازی کے وقت اس سے متعلقہ لوگوں سے بھی مشاورت کی جائے حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کنسٹرکشن انڈسٹری کو ترقی دے رہے ہیں مگر اس میں اتنی پیچیدگی اور مشکلات پیدا کی جاتی ہے جس سے یہ انڈسٹری زوال کی طرف جارہی ہے۔
منصور علی بھی کرش پلانٹ میں منیجر کے طور پر کام کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہر سال سیلاب کی وجہ سے دریا کی سطح بلند ہوتی جاتی ہے جس کی کھدائی اور بھل صفائی پر محکمہ آبپاشی اور انتظامیہ کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں جبکہ کرش پلانٹ والے یہ کام مفت میں کرتے ہیں دریا سے پتھر، ریت اور بجری اٹھاکر کرش بنا رہے ہیں اور وہ یہ کام مفت میں کرتے ہیں مگر معدنیات والے ان کومنع کرتے ہیں کہ دریا کی خوبصورتی متاثر ہورہی ہے اگر حکومت ان کو اجازت دے تو یہ کام مفت میں ہوگا اور بھل صفائی کا فنڈ کسی اور ترقیاتی کام میں خرچ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہے مگر سرکاری ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے وہ اس کرش پلانٹ میں کام کرتا ہے اب حکومت نے ان پلانٹوں کو بند کرکے اس کی طرح سینکڑوں لوگوں کو بے روزگار کیا ہے۔
محمد آیوب ملتان (پنجاب) سے مزدوری کرنے کیلئے کرش پلانٹ میں کام کرنے کی عرض سے چترال آیا ہوا ہے جہاں وہ اپنے بچوں کیلئے رزق حلال کماتا ہے ان کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک ماہ سے کرش پلانٹ بند ہے اور وہ بھی بے روزگار ہے انہوں نے کہا کہ اگر ہم بے روزگار ہوگئے تو بچوں کاپیٹ پالنے کیلئے یا تو چوری کرنی پڑے گی یا کوئی دوسرا غیر قانونی کام ورنہ ہم خودکشی کرنے پر مجبور ہوں گے۔
عمران احمد کا تعلق لوئر دیر سے ہے انہوں نے گہریت اور سید آباد میں کرش پلانٹ لگایا ہے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کروڑوں روپے لگائے ہیں اور ان کے ساتھ کئی مزدوروں کی بھی روزی روٹی لگی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم نے حکومت کے تمام تر لوازمات پوری کیے ہیں مگر اس کے باوجود محکمہ معدنیات اور سرکاری ادارے روز بروز کوئی نیا مسئلہ پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس کاروبار کو بری طرح دھچکا لگا ہے اور کئی خاندان اس کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ حضرت میر کا تعلق ارندو سے ہے ان کا کہنا ہے کہ اس نے قانونی طور پر لیز لیا ہوا ہے اور لاکھوں روپے جمع کئے ہیں مگر اب ریور بلٹ کا مسئلہ پیدا ہوا ہے جس میں دریا میں پڑے ہوئے میٹریل کے استعمال پر معدنیات نے پابندی لگائی ہے جس سے یہ کام متاثر ہوا ہے۔
کرش پلانٹ مالکان اور اس میں کام کرنے والے سینکڑوں مزدور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ حد سے زیادہ سختی نہ کی جائے بلکہ ان کیلئے آسانیاں پیدا کرے تاکہ وہ اپنا کاروبار چلا سکے۔