لائف سٹائل

”یہاں کھانے کو روٹی ہے نا پینے کو صاف پانی، تم لوگوں کو ہمارا خیال آتا ہی نہیں”

سدرہ ایان

بچے جب کہیں جاتے ہیں تو راستے میں انہیں ہر دوسری چیز انوکھی دکھائی دیتی ہے اور ہر چیز کو وہ اپنے نقطہء نظر سے دیکھتے ہیں۔ راستے میں بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وہ لینا چاہتے ہیں، بہت سی جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں وہ جانا چاہتے ہیں، بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کے بارے میں وہ جاننا چاہتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی وہ خواہشات پوری ہو جاتی ہیں، کچھ بچے بڑے ہونے کے بعد ان چیزوں کے بارے میں جان کر اپنا تجسس دور کر دیتے ہیں۔
میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سین بنا رہا۔

بچپن میں ہم جب گاؤں جاتے تھے تو راستے میں سڑکوں کے اطراف پر کافی دور بہت سی جھونپڑیاں نظر آتی تھیں۔ بچے باہر کھیل رہے ہوتے تھے اور خواتین مختلف کاموں میں لگی ہوئی نظر آتی تھیں۔ ان لوگوں کے بارے میں، میں ہمیشہ تجسس کا شکار رہی تھی کہ یہ کون لوگ ہیں اور یہاں کیسے زندگی گزارتے ہیں؟

وقت کے ساتھ میں بڑی ہو گئی اور وہی جھونپڑیوں والے لوگ سڑکوں پر اور اڈوں میں بھیک مانگتے ہوئے نظر آنے لگے۔
ہمارے لوگ ان خانہ بدوشوں کو بہت حقارت سے دیکھتے ہیں جبکہ وہ خود بھی کسی ایلفی کی طرح آپ سے چپک کر بھیک مانگتے ہیں۔ پہلے آپ کو ایک دو بندے نظر آتے تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے جیسے پورے پورے خاندان نکل پڑے ہیں جن میں بچے بڑے سب شامل ہوتے ہیں۔

ہماری نظر سے دیکھو تو ہم لوگ انہیں پسند نہیں کرتے، انہیں گالیاں دیتے ہیں برا بھلا کہہ کر گھروں سے نکال دیتے ہیں اور اکثر ساتھ میں یہ مشورہ بھی منہ پر مار دیتے ہیں کہ اگر پیسے نہیں ہیں تو جا کر کہیں کام کر لو! (یہ سوچے سمجھے بنا کہ انہیں کوئی کام دیتا بھی ہے یا نہیں؟)

خیر بالآخر اللّٰہ نے مجھے ان لوگوں کے علاقے جا کر ان سے ملنے کا موقع دے ہی دیا اور میرا تجسس ختم ہو گیا جو بچپن سے میں اپنے ساتھ لے کر گھوم رہی تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ میں ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے لیے ایک رپورٹ بنا رہی تھی تو میں نے سوچا کیوں نہ ان لوگوں کی زندگی پر ایک رپورٹ بناؤں۔ تو ب میں اپنی دو ساتھیوں سمیت نوشہرہ پل کے قریب نیچے اک ساحلی سا علاقہ ہے جہاں بہت سے خانہ بدوش آباد ہیں، ادھر گئی۔ جب ہم سڑک سے اتر کر ان کی طرف جا رہے تھے تو میں نے اپنے پیچھے کئی نگاہوں کو تعاقب کرتے پایا۔ لوگوں کے لیے یہ منظر شاید حیران کن تھا کہ یہ لڑکیاں ان لوگوں کے بیچ کیوں جا رہی ہیں؟ لیکن ہم گئے کیونکہ یہ ہمارا مسئلہ تھا لوگوں کا نہیں!

جب ہم ادھر ان جھونپڑیوں کے قریب پہنچے تو وہ لوگ بھی ہماری طرف متوجہ ہو گئے۔ ہم نے وہاں اپنا تعارف کروایا تو پتہ چلا کہ بس اسی کی ہی دیر تھی۔ اس کے بعد اردگرد سے آوازیں آنے لگیں جیسے "ہم بھوکے پیاسے مر رہے ہیں، ہمارا کوئی پوچھتا نہیں، یہاں کھانے کو روٹی نہیں ہے اور پینے کو صاف پانی نہیں ہے، تم لوگوں کو ہمارا خیال آتا ہی نہیں۔” آخری جملے میں میرا دھیان اٹک گیا۔ "تم لوگوں کو ہمارا خیال آتا ہی نہیں!”

یہ تو طے تھا کہ ہمارے لوگ ان خانہ بدوشوں کو خود سے الگ اور کم تر سمجھتے ہیں لیکن یہ جان کر مجھے دھچکہ لگا کہ وہ خود بھی خود کو ہم سے الگ اور کمتر ہی سمجھتے ہیں۔ معلوم تو تھا کہ ان لوگوں سے انٹر لینے میں کافی مشکل پیش آئے گی۔ ان سے انٹرویو لینے میں کافی مشکل کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن ان کو جیسے بہت عرصے بعد بولنے کا موقع ملا تھا وہ لوگ بس پل بھر میں عمر بھر کا غبار نکالنے کو تیار تھے۔

پہلے وہ انٹرویو دینے سے انکار کر رہے تھے کہ ہم نے ان کے لیے کیا ہی کیا ہے اب تک! ہم نے ان کو یقین دلایا کہ وہ جو چاہیں انٹرویو میں کہیں، اپنی ضروریات اپنی خواہشات سب کچھ! ہم ان کی آواز لوگوں تک پہنچائیں گے۔ آخر کار نادیہ نامی لڑکی انٹرویو دینے کے لیے راضی ہو گئی۔

رپورٹنگ کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں، اپنا اک طریقہ ہوتا ہے، اپنی کچھ تکنیکس ہوتی ہیں لیکن نادیہ پہلی دفعہ سکرین پر آ رہی تھی تو وہ بہت نروس اور سہمی ہوئی تھی لہذا میں نے رپورٹنگ کے تمام تر اصولوں کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے اس طریقے سے انٹرویو کیا جیسے نادیہ چاہ رہی تھی۔

نادیہ نے بتایا کہ "یوں تو دنیا کی نظروں میں وہ بہت ہی برے لوگ ہیں، چور ہیں، لوگ انہیں گالیاں دیتے ہیں، لوگ انہیں کہتے ہیں کہ جا کر کسی کے گھر کام کریں جبکہ لوگ تو انہیں گھروں میں گھسنے ہی نہیں دیتے۔”

میں نے دیکھا کہ ادھر بہت سی جھونپڑیاں تھیں۔ ہر جھونپڑی میں ایک ایک خاندان زندگی گزار رہا تھا۔ لڑکیوں اور بچوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ چھوٹے بچوں نے کپڑے پہن ہی نہیں رکھے تھے، جو بچے 5، 6 سال سے لے کر 7، 8 سال کے تھے انہوں نے صرف شلوار پہن رکھا تھا۔ ان میں سے کئی بچیوں کو میں نے دیکھا جنہوں نے قمیض کی جگہ دوپٹے سے خود کو ڈھانپ رکھا تھا۔ ان کی خواتین نے بڑے بڑے گھاگرے پہن رکھے تھے۔ ان کے ہاتھوں اور گلے میں زنگ آلود زیور اور پاؤں میں پازیب تھے۔ سبھی کے بال الجھے ہوئے اور کیڑے میلے تھے۔ کسی ایک بچے کے پاؤں میں بھی میں نے چپل نہیں دیکھے۔

نادیہ کے مطابق ان کی ماں معذور ہے، ان کا ایک بھائی ہے جو دماغی مریض ہے، والدین نے نادیہ کی دو سال پہلے شادی کروائی تھی لیکن جلد ہی اس کا شوہر اس کو چھوڑ کر چلا گیا۔ ان کے والد دیہات سے لکڑی لاتے ہیں اور اس سے ٹوکریاں بناتے ہیں۔ دو گھنٹے میں ایک ٹوکری بنتی ہے۔ وہ دن بھر کام کرتے ہیں لیکن پھر بھی پورا گھرانہ سنبھالنے سے قاصر ہیں۔ تبھی نادیہ باہر نکلتی ہے اور بھیک مانگتی ہے۔

نادیہ کو بھیک مانگتے ہوئے یہی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ انہوں نے اسے پیشہ بنا رکھا ہے جبکہ ان کے گھر کے اندرونی حالات سے کوئی بھی واقف نہیں۔ جھونپڑیوں کے پاس ہی ایک دریا ہے جہاں کا پانی صاف نہیں لیکن ان کے بچے بڑے سب وہیں نہاتے ہیں۔ کپڑے اور برتن بھی وہی دھوئے جاتے ہیں۔

نادیہ کے مطابق گرمیوں میں تو پھر بھی خیر ہے لیکن سردیوں میں نہانے کا بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ انٹرویو کے بعد ہم دریا کی طرف گئے۔ وہاں ہم شاٹس لے رہے تھے۔ کافی گرمی بھی تھی۔ مجھے شدید پیاس کا احساس ہوا۔ میں نے ان میں سے ایک بچے کو پیسے دے کر کہا کہ وہ مجھے پاس والی دکان سے ایک بوتل پانی لے کر دے۔ لیکن اس دکان میں پانی نہیں ملا۔ نادیہ نے کہا ہماری جھونپڑی میں ہے دے دوں؟

مجھے معلوم تھا کہ وہ دریا کہ گندے پانی سے برتن دھوتے ہیں لیکن میں نے ان کے چہروں کو پڑھا۔ نادیہ نے تو مجھے پانی دینے کا پوچھا لیکن باقی لوگ جھجک محسوس کر رہے تھے۔ انہیں لگا میں ان کے گھر کا پانی پینے سے انکار کر دوں گی۔ میں نے کہا ہاں کیوں نہیں! مجھے پانی دے دیں، مجھے پیاس لگی ہے۔

وہ پانی سے بھرا سٹیل کا ایک بڑا گلاس لے آئی۔ ان کا دل رکھنے کے لیے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ برتن دریا کے پانی سے دھوتے ہیں، میں نے وہ پانی پیا۔ ان میں سے ایک خاتون کہنے لگی کہ ہمیں لگا آپ پڑھی لکھی لڑکی ہو، ہمارے گھر کا پانی نہیں پیو گی۔ تب مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ اگر ہمارے لوگ انہیں کم تر سمجھتے ہیں تو وہ خود بھی خود کو ہم لوگوں سے کمتر سمجھتے ہیں۔ میں نے کہا اللہ کا بنایا ہوا پانی ہے اور اللہ کی بنائی ہوئی دنیا کے تمام انسان برابر ہیں۔

واپسی پر جب میں نے ان سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو جھجکتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ تھاما۔ شائد وہ خود کو اس قابل سمجھ ہی نہیں رہی تھی کیونکہ اس نے تو ہر جگہ دھتکار، گالم گلوچ اور بے عزتی ہی دیکھی تھی۔۔ اسے ایک پل کو جیسے یقین ہی نہیں آیا۔

واپسی پر تمام سوالات حل ہو چکے تھے۔ میں یہی سوچتی رہی کہ وہ انسان ہیں، ہم جیسے انسان! ان کی بھی فیملی ہے، ان کے گھروں میں بھی بیماریاں ہیں، انہیں بھی جینے کے لیے روٹی چاہیے۔ وہ بھی ہم ہی جیسے پاکستانی شہری ہیں، جو روزگار کی تلاش میں ملتان سے نوشہرہ منتقل ہوئے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ پڑھیں، لکھیں، نوکری کریں، اور اپنے ہاتھوں سے پیسے کمائیں۔

ان کی بھی دلی خواہش ہوتی ہو گی کہ جھونپڑیوں سے نکل کر ہماری طرح مکانوں میں آباد ہو جائیں۔ وہ چور تھے نہ ڈاکو، قاتل تھے نہ ہی اغواء کار اور نہ ہی خراب لوگ تھے، وہ صرف غریب تھے، بے روزگار تھے۔ ان کے ضمیر زندہ تھے، ان کے احساسات و خواہشات زندہ، وہ خود نہیں چاہتے تھے کہ بھیک مانگیں، وہ بھیک مانگتے ہوئے جو بے عزتی سمیٹ رہے تھے انہیں اس کا شدت سے احساس تھا۔ گالی کھانے سے کہیں اندر ان کے دل ضرور دکھ رہے تھے۔

بالآخر ان کے بارے میں میرا تجسس ختم ہو گیا، سارے سوالوں کے جواب مل گئے لیکن گھر جاتے ہوئے میں ایک اور تجسس ساتھ لے کر گئی۔ کئی لوگوں نے بتایا کہ یہ لوگ تم سے زیادہ کماتے ہیں، یہ لوگ کتنا کماتے ہیں، کن کن طریقوں سے کماتے ہیں اور ان پیسوں کو اگر استعمال نہیں کرتے تو کیا کرتے ہیں؟ اگر ان کے پاس واقعی پیسہ ہے تو کوئی کاروبار کیوں شروع نہیں کرتے؟ ان میں سے کچھ لوگ مختلف قسم کے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں، جن میں بچوں کو اغواء کرنا ٹرینڈ پر ہے۔ ان باتوں میں کتنی سچائی ہے؟ اب میں اس وقت تک یہ تجسس ساتھ لیے پھروں گی جب تک کہ دوبارہ جا کر میں ان سوالات کے جواب ڈھونڈ نہ لوں۔ لیکن ساتھ میں مجھے یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہو گی کہ وہ بھی انسان ہیں، سینوں میں دل رکھتے ہیں، اور ان کا بھی ضمیر زندہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button