کراچی: وزیرستان کا ایک اور نوجوان مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں قتل
کراچی میں ایک اور مبینہ پولیس مقابلے میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو مار دیا گیا، تاہم ارسلان محسود کے والد لیاقت محسود نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے بغیر کسی وارننگ کے ان کے بیٹے پر سیدھی گولی چلائی جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔
بی بی سی اردو کی خبر کے مطابق گذشتہ روز اورنگی ٹاؤن کے علاقے میں پونے پانچ بجے کے قریب فائرنگ سے ارسلان محسود جاں بحق جبکہ یاسر نامی نوجوان زخمی ہوا تھا، پولیس کی جانب سے ابتدائی طور پر اسے ڈکیتی کا واقعہ قرار دیا گیا تاہم بعد میں پولیس کے خلاف فائرنگ کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
لیاقت محسود کے مطابق ان کا بیٹا کالج کا طالب علم تھا اور کوچنگ کیلئے اپنے دوست یاسر کے ہمراہ موٹرسائیکل پر گیا ہوا تھا جب ان پر فائرنگ کی گئی، زخمی یاسر نے انہیں گھر پر آ کر بتایا کہ ان پر فائرنگ ہوئی ہے جس کے بعد وہ عباسی شہید ہسپتال پہنچے جہاں ان کے بیٹے کی لاش موجود تھی۔
خبر کے مطابق عباسی شہید ہسپتال میں سٹریچر پر موجود بیٹے کی لاش کے ساتھ لیاقت محسود کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے سینے پر پاکستان کے جھنڈے کا بیج لگا ہوا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا تعلق وزیرستان سے ہے، خون کا بدلہ خون ہے، ان کی برادری کے تمام لوگ پہنچیں۔ لیاقت محسود ڈمپرز ایسوسی ایشن کے صدر اور تحریک انصاف کے مقامی رہنما بھی ہیں۔
بعدازاں پولیس کے اعلیٰ افسران نے متاثرین سے ملاقات کی جس کے بعد ایس ایچ او کو معطل اور ایک سپاہی کو گرفتار کر لیا گیا۔ ارسلان کے قتل اور یاسر کو زخمی کرنے کا مقدمہ ایس ایچ او اعظم گوپنگ سمیت دو سپاہیوں کے خلاف اورنگی تھانے میں درج کیا گیا ہے۔
مقتول کے چچا بادشاہ خان کے مطابق انھیں معلوم ہوا کہ ارسلان ولد لیاقت اپنے دوست یاسر کے ساتھ ٹیوشن پڑھنے کے لیے موٹر سائیکل پر گیا ہوا تھا بورڈ آفس کے قریب موٹر سائیکل کی چھینا جھپٹی کے دوران ارسلان کو پیٹ میں ایک گولی لگی، جو جسم کے پار ہوگئی جبکہ یاسر کو ٹانگ میں گولی لگی لیکن وہ موٹرسائیکل سمیت فرار ہوگیا، ”ہم ہسپتال میں تھے کہ اورنگی ٹاؤن کا سب انسپکٹر محمد منور آیا، جس نے ضابطے کی کارروائی کی، مزید معلومات پر پتا چلا کہ تھانے اورنگی کے ایس ایچ او اعظم گوپانگ کے حکم پر کانسٹیبل توحید اور اس کے ساتھی عمیر نے سادہ لباس میں موٹر سائیکل چھیننے کے دوران مزاحمت پر ارسلان کو قتل اور اس کے دوست یاسر کو زخمی کیا ہے، اورنگ پولیس نے ان کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔”
دوسری جانب کراچی میں ارسلان محسود کے مبینہ قتل پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی بحث مباحثہ شروع ہو گیا ہے۔
خیال رہے کہ قریباً چار سال قبل اسی طرح کے ایک مبنیہ جعلی پولیس مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کو قتل کر دیا گیا تھا، مذکورہ کیس کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں آج بھی زیر سماعت ہے۔