صحت

بچوں میں کھانسی کی 7 سے 8 تک اقسام، ہر کھانسی ٹی بی کی علامت نہیں

ناہید جہانگیر

اکثر ہسپتالوں یا علاج معالجے کے نجی مراکز میں ایسے بچوں کو لایا جاتا ہے جنہوں نے دو مرتبہ ٹی بی کورس 8 ،8 مہینے کا پورا کیا ہوتا ہے لیکن نا تو ان کے پاس کوئی ٹی بی ٹیسٹ ہوتا ہے نا ہی مریض کی کوئی ہسٹری۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے ایک خسوصی نشست میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے شعبہ امراض اطفال کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امیر محمد نے بتایا کہ بچوں میں تپ دق مرض تشخیص کرنا بہت ہی پیچیدہ عمل ہے، ”بچوں میں بھی کھانسی کی 7 سے 8 تک اقسام ہوتی ہیں، ہر کھانسی تب دق کی علامت نہیں ہے لیکن بعض ڈاکٹر بغیر تصدیق اور ٹیسٹ کے بچوں کو ٹی بی کا علاج شروع کرا دیتے ہیں۔”

ڈاکٹر امیر محمد نے کہا کہ بچوں میں تپ دق کی تشخیص کے لئے ان کے معدے سے صبح کے وقت پانی لیا جاتا ہے، شک ہونے کی بنا پر معلوم کیا جاتا ہے کہ خاندان میں کوئی اس مرض میں مبتلا تو نہیں تھا، پوری ہسٹری معلوم کرنے اور ٹیسٹ آنے کے بعد ہی ان کا علاج شروع کیا جاتا ہے۔

پشاور شہر کی رفعت ناز کے 7 سالہ بیٹے کو کچھ مہینوں سے کھانسی کی شکایت تھی، ”ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور ٹی بی کا علاج شروع کیا، 8 مہینے دوائی استعمال کی لیکن بچے کو کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ اب سرکاری ہسپتال ڈاکٹر کے پاس لے کر آئی ہوں جس نے ٹیسٹ لکھ کر دیئے ہیں۔” انہوں نے کہا کہ وہ تو ان پڑھ لوگ ہیں، جو ڈاکڑ کہے اسی پر عمل کرتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں ڈاکٹر جو علاج بتائے گا چاہے کسی سے قرض بھی لینا پڑے وہی دوائی خرید کر استعمال کرتے ہیں۔

دوسری جانب صوابی کے نادر خان بھی اپنی بچی کو سرکاری ہسپتال لے کر آئے ہیں، انہوں نے بھی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق بچی کو ٹی بی کا کورس کرایا ہے جس سے بچے کی حالت بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہو گئی ہے۔ اب ڈاکٹر نے نادر خان کی بچی کو ہسپتال میں داخل کیا ہے، اس کے کچھ ضروری ٹیسٹ کیے گئے ہیں، نتائج آنے کے بعد پتہ چلے گا کہ ان کی بچی کو کیا بیماری ہے۔

اس سلسلے میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امیر محمد نے کہا کہ بدقسمتی سے بچے کو الرجی یا موسمی کھانسی ہوتی ہے لیکن علاج تجویز ٹی بی کا ہوتا ہے جو کہ بہت ہی خطرناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ والدین سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر بچوں میں کھانسی کا دورانیہ 4 ہفتوں سے زیادہ ہو جائے تو کسی مستند ڈاکڑ سے رجوع کریں اور تپ دق کا شک ہونے کی صورت میں ٹیسٹ کیے بغیر علاج سے اجتناب کریں۔

ڈاکٹر نے حکومت سے بھی اپیل کی کہ ٹی بی دوائیاں کافی مہنگی ہیں اور ان کا غیرضروری ضیاع کیا جا رہا ہے، عام مارکیٹ میں ان کی دستیابی پر پابندی لگائی جائے کیونکہ بغیر ٹی بی کے بچوں کو یہ دوائی تجویز کرنا نا صرف خطرناک ہے بلکہ ہائی ڈوز کے استعمال سے بچوں میں اور بیماریوں کا علاج بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button