بلاگزسیاست

”انتخابات میں دوسروں کے سر پر جھگڑا کیا، عدالت نے سزائے موت سنائی، اٹھارہ سال سے قید اور ہر قسم کی خوشیوں سے محروم ہوں”

عصمت شاہ گروکی

جوں ہی انتخابات کے دن نزدیک آ جاتے ہیں عوام کے رویوں میں ایک بدمزاجی اور چڑچڑاپن نمودار ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ساتھ ساتھ کچھ بیماریوں کی لت بھی لگ جاتی ہے جن میں ہائی بلڈپریشر سب سے نمایاں ہے اور لوگوں پر ہر وقت ایک غصے کی کیفیت طاری رہتی ہے, وہ اپنی پارٹی کے امیدوار کو دوسرے پر فوقیت دیتے ہیں، کوئی اس بندے کے بارے میں کوئی بات کرتا ہے تو مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں اور کسی بھی قیمت پر اپنے لیڈر کو نیچا نہیں دکھاتے بلکہ اس کی ان خوبیوں کے گن بھی گاتے ہیں جو ان میں سرے سے ہوتی ہی نہیں ہیں، لیکن یہ ان کی ہر قیمت پر اس کو بس جتوانے کی کوشش ہوتی ہے۔

گلی محلہ، بازار ہر جگہ پر بس الیکشن کا بخار ہی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بعض اوقات بلڈپریشر جب بہت ہائی ہو جاتا ہے تو لڑائی کی نوبت آ جاتی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہوتی ہے کہ یہ لڑائیاں اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے لڑی جاتی ہیں۔ ہمارے پختون معاشرے میں دادی، نانی کے لئے دو بول تو ہر وقت ہی بولے جاتے ہیں، بڑی غلیظ قسم کی گالیاں سر بازار دی جاتی ہیں یا پھر تو وت مار، تو وت مار کا ورد جاری رہتا ہے۔

اگر باہر کسی پر بس نہ چلے تو گھروں میں خواتین پر وہ غصہ نکالا جاتا ہے، جب وہاں بھی دال نہیں گلنے لگتی تو بچوں پر غصہ نکالنا تو جیسے لازمی عنصر ہے۔ ہم دیکھتے آئے ہیں کہ ہمارے رویوں میں تبدیلی نہیں آتی، ہم خواہ جتنے بھی تعلیم یافتہ ہوں ہم میں وہ جاہل پن موجود ہے، غیرت کے نام پر جاہلیت امڈ ہی آتی ہے جس کا نقصان ہمیں ہی ہوتا ہے مگر ہمیں تب پتہ چلتا ہے جب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ہم اتنے پاگل ہو جاتے ہیں کہ دوسروں کے لئے اپنا نقصان کرتے ہیں۔ سیاست دان اپنے کھیل میں مگن عوام کو لڑوا کر تماشا دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں اور ہماری بے چاری عوام جو دو وقت کی روٹی کے لئے ترستی ہے وہ ان سیاستدانوں کے لئے لڑتی ہے جو ان کے منہ سے نوالہ چھیننے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ انتخابات کے دنوں میں دو پارٹیوں کے ورکروں کے درمیان تصادم ہوتا ہے اور کچھ کے سر پھوڑے جاتے ہیں کہ اس نے میرے لیڈر میری پارٹی کے بارے میں غلط بات کی ہے اور جب معلوم ہوتا ہے تو وہی سیاستدان کل کو اسی پارٹی کے لیڈر کے ساتھ براجمان ہوتا ہے۔

سترہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا غوغا پوری طرح جاری ہے، ہر جگہ پر میلے سج گئے ہیں۔ گاؤں اور شہروں میں عجیب طرح کا سماں ہے! بعض منچلوں نے دیارغیر سے یہ ایونٹ منانے کے لئے چھٹیاں منظور کرا لی ہیں۔ گاؤں اور شہر میں ہر دوسرا بندہ خود کو قوم کی خدمت کے لئے وقف کر چکا ہے، ہر بندے کے اندر کا سیاست دان باہر آنے کو بے تاب ہے۔

پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا بخار آج کل زوروں پر ہے اور پورے ملک میں ایک گہماگہمی اور خطرناک رویوں کی فضا نظر آ رہی ہی۔ بلدیاتی انتخابات اگرچہ عوامی مفاد میں ایک بہترین عمل ہے، اس میں عوامی فلاح کے لئے منصوبے بنیں گے مگر دوسری جانب اس کے نقصانات کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔ حکومت معاشرے کی ترقی کا تو ضرور سوچتی ہے مگر عوام کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑانے میں بھی مہارت رکھتی ہے۔

پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ

ہمارا معاشرہ کئی سالوں سے حالت جنگ میں ہے۔ موجودہ بلدیاتی انتخابات 19 دسمبر کو ہونے والے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انتخابات میں سماجی اور سیاسی جھگڑے اور گھریلو ناچاقیاں زوروں پر ہوں گی، حالانکہ بلدیاتی الیکشن کا مقصد نچلی سطح تک اختیارات کو منتقل کرنا ہوتا ہے لیکن اس نظام کے مخالف دھڑے، جنہیں اپنی تجوریوں اور کرپشن کی نذر ہونے والی رقم کی فکر ہے، اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں۔

ایم ایم اے کے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کے دوران رشتہ داروں کی ناراضگیاں اور جھگڑوں کے زخم تو ابھی تک تازہ ہیں لیکن سر پر دوبارہ بلدیاتی انتخابات آن پہنچے اور اس بار تو شاید یہی ناراضگیاں اور جھگڑے مزید زور پکڑیں کیونکہ معاشرے کا ہر ایک فرد بے روزگاری جیسے مسائل کا شکار ہے۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات بھی کچھ مختلف نہیں تھے۔ پڑوسی اور اہل علاقہ تو دور کی بات باپ بیٹا، ماموں بھانجا، چچا بھتیجا اور بھائی بھائی کی ناراضگی اس قدر تھی کہ سالوں ایک دوسرے سے اس حد تک قطع تعلق رہا کہ اگر ایک کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوتی تو دوسرے اس سے بے خبر رہتے تھے۔

مردان جیل میں پھانسی کی سزا پانے والے مجرم کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دوسروں کے سر پر جھگڑا کیا جس کی سزا آج بھی بھگت رہا ہوں اور قتل کی سزا میں قید ہوں، ”عدالت نے سزائے موت سنائی ہے اور اٹھارہ سال سے قید اور ہر قسم کی خوشیوں سے محروم ہوں۔” ان کا کہنا ہے کہ انتخابات میں کبھی بھی دوسروں کے سر پر لڑائی جھگڑے نہیں کرنے چاہئیں ورنہ یہ لوگ اسلام آباد کے ہو جائیں گے اور تمھارا جیل میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا، ”والد وفات پا گئے میں نے نہیں دیکھا اور نہ ان کے جنازہ میں شرکت کی اور ان کی موت کی خبر جب ٹیلی فون پر ملی تو دو دن بے ہوش رہا، جب بھی کوئی خوشی ہوتی ہے والدہ کو میری یاد آتی ہے اور زاروقطار رونے لگتی ہیں، آزادی کی قدر کرنی چاہئے اور دوسروں کیلئے زندہ باد مردہ باد کے نعرے نہیں لگانے چاہئیں۔”

ایک تو ہمارا معاشرہ بھی پختون معاشرہ ہے جو صوبائی سطح پر اپنا رہنما تک نہیں رکھتا کیونکہ ہر کوئی اپنے آپ کو ایک دوسرے سے کم تر نہیں سمجھتا جس کی وجہ سے اپنی برتری کی سوچ انہیں مار دیتی ہے اور معاشرہ ذہنی کوفت کا شکار ہوتا جا رہا ہے یہاں تک کہ آنے والی نسلوں کے ذہنوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یوں سالوں تک ایسے لوگوں میں وہی نفرت جاری رہتی ہے۔ جس معاشرے کے لوگ اتنے کم درجے کے انتخابات میں باہمی اتحاد کا مظاہرہ نہیں کر سکتے تو ان سے قومی اتحاد کی کیا توقع کی جا سکتی ہے اور نفرتوں کدورتوں اور ضد کی ایک بھوک ان کے ذہنوں پرسوار ہوتی ہے اور معمولی معمولی تکرار پر بڑے بڑے جھگڑے رونما ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اس میں قتل، اقدام قتل، طلاق، قطع تعلق اور دیگر معاشرتی برائیوں کا راستہ بھی اختیار کر لیا جاتا ہے، اس کے لئے کروڑوں روپے کا نقصان کرنے کے بعد بھی خونی رشتوں میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

ٹانک سے تعلق رکھنے والے احمد نے اپنے خاندان؛ والد اور بھائیوں سے اس لئے راستے جدا کئے کہ وہ بضد تھا کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں اس کا چھوٹا بھائی الیکشن لڑے گا جس کیلئے اس کے والد اور بھائی راضی نہیں تھے کیونکہ پچھلے انتخابات میں ان کے خاندان کے اآپس میں تعلقات خراب ہو گئے تھے اور بات دشمنی تک چلی گئی تھی۔

اگر اچھے طریقے سے انتخابات ہوتے ہیں جس کا فائدہ زیادہ تو ہو گا لیکن شائد گلی کوچوں کی پختگی، واٹر پمپس اور چھوٹی سی ندی پر پل تعمیر جیسے فوائد سے زیادہ نہیں، ہمارے معاشرے میں کرپشن اتنے عروج پر ہے جس کی کوئی حد نہیں اور یہ زہر ایک کسان یا کونسلر کے دل سے کیسے نکل پائے گا جس نے پوری زندگی غلامی اور پسماندگی میں گزاری ہو۔

علاقائی رنجشوں کا رونا تو ہم کئی صدیوں سے رو رہے ہیں لیکن جب عوامی بھلائی کی بات آتی ہے تو ایسے عناصر سے بھلا کون پوچھے جن کی تمام تر توانائیاں بلدیاتی نظام کیخلاف صرف ہوتی ہیں۔ کوئی پارٹی انتخابات کیلئے تیار نہیں اور پارٹی ٹکٹ کا مسئلہ انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ پس پردہ حقائق کچھ بھی ہوں مگر ایک بات تو حقیقت ہے کہ پاکستان میں جمہوری حکومتوں نے کبھی بھی بلدیاتی الیکشن کی حمایت نہیں کی جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں بلدیاتی انتخابات کیلئے اصلاحات 1962،1979،2001 اور 2013ء میں ہوئیں۔ ابتدائی تینوں مرتبہ ریفارمز آرمی جرنیلوں کے ادوار میں اور آخری بار تحریک انصاف کی سابقہ صوبائی حکومت نے کئے۔

یہاں قابل افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان میں صرف چند ایک سیاسی جماعتوں کے علاوہ باقی تمام جماعتیں اختیار کی منتقلی صرف مرکز اور صوبائی حکومت کے پاس ہونے کی حامی ہیں جبکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بجائے یہ سیاسی جماعتیں صوبائی اسمبلی کے ممبران اور سول بیوروکریسی کے ذریعے عوامی مفاد کے پراجیکٹ اور سروس کو چلانے کے حق میں ہیں۔

صوبائی وزیر اطلاعات کامران خان بنگش کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ہر حال میں بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتی ہے اور حکومت مکمل طور پر تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ملک میں امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوں, ”حکومت عوام کو سہولیات دینے کی خواہاں ہے لیکن عوام پرامن طریقے سے انتخابات کریں اور لڑائی جھگڑوں سے پرہیز کریں۔”

سوشل ایکٹیوسٹ تیمور کمال کہتے ہیں کہ وہ ویلج کونسل ترخہ نوشھرہ سے جنرل کونسلر کے امیدوار ہیں، ان کی کوشش ہو گی کہ ہر ایک کو ووٹ پر آمادہ کریں لیکن اگر کسی نے نہیں دیا اور میری مخالفت کی تو مجھے کوئی رنج نہیں ہو گا کیونکہ شاید کہ میں ووٹ کا صحیح حقدار نہیں ہوں گا اور اپنے سپورٹرز کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ کوئی لڑائی جھگڑا نہ کریں۔

جمیعت علمائے اسلام کے صوبائی ترجمان مولانا عبدلجلیل جان کا کہنا ہے کہ برائیوں اور ناچاقیوں کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے، رہی ووٹ اور انتخابات کی بات جس کیلئے قانون اور آئین نے سب کچھ واضح کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے صبر اور ایک دوسرے کے احترام پر زور دیا ہے اور کسی کی بھی بے عزتی کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔

”19 دسمبر یعنی بلدیاتی انتخابات کے دن، الیکشن کو لے کر ہم نے صرف فضول کی ٹینشن اور پریشانیاں پالی ہوئی ہیں کہ نواز شریف کیلئے گردن کٹانی ہے، بلاول بھٹو زرداری کیلئے لڑ مر جانا ہے، عمران خان پر تنقید کرنی ہے، مولانا کو برا بھلا کہنا ہے، سوشل میڈیا پر جنگیں لڑنی ہیں اور پی ٹی آئی کا دفاع کرنا ہے، اس کو تو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہی کہہ سکتے ہیں۔ عوام کو صرف اپنی روٹی سے غرض ہوتی ہے۔ یہاں کوئی بھی حکمران آ جائے، ہونی وہی مہنگائی، وہی بیروزگاری ہے، وہی پریشانی اور وہی اذیت ہے۔ تو ہم ان سب کیلئے اپنے رشتہ داروں سے کیوں لڑیں؟”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button