امیر لوگ سرکاری خرچ پر بیرونی ملک علاج کے لئے جاسکتے ہیں تو معصوم محمد علی کیوں نہیں؟
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت نے ایم ٹی آئی کے نام پر سرکاری ہسپتالوں کو ناکارہ کردیا۔
ہائی کورٹ میں خون کی کمی جیسے موذی مرض میں مبتلا بچے کے علاج کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے ایم ٹی آئی کے نام پر سرکاری ہسپتالوں کو ناکارہ کرکے رکھ دیا ہے، صوبے کا سب سے بڑا اور قدیم ہسپتال لیڈی ریڈنگ تو جیسے غیر فعال ہے، کارڈیالوجی وارڈ کو غیر فعال کرکے مریضوں کے لئے مشکلات پیدا کی گئی ہیں، حکومت کیا چاہتی ہے، کیا یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہسپتالوں میں رلتے رہیں، ایم ٹی آئی کا بہانا بنا کر حکومت ہسپتالوں کی غیر معیاری کارکردگی سے جان نہیں چھڑا سکتی، سینئر ڈاکٹر ہسپتال کو چھوڑ کرجارہے ہیں، کارڈیالوجی وارڈ کا جو حشر ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
چیف جسٹس قیصر رشید خان نے کہا کہ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ ہسپتالوں کی کارکردگی چیک کرے، ایل آر ایچ صدیوں پرانا ہسپتال ہے جسے اس حکومت کے ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت تباہ کیا گیا، صرف پوسٹنگ ٹرانسفر سے کام نہیں چلے گا لوگوں کی تکالیف دور کرنی ہوں گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صحت سے متعلق اچھی خبریں نہیں مل رہیں، اس وجہ سے لوگ مجبورا نجی ہسپتالوں کا رخ کررہے ہیں، وزراء اور امیر لوگ سرکاری خرچ پر بیرونی ملک علاج کے لئے جاسکتے ہیں تو معصوم محمد علی کیوں نہیں، عدالت نے ہدایات جاری کی تھیں کہ تھیلیسمیا کے علاج کے لئے الگ ہسپتال بنایا جائے۔
اسپیشل سیکرٹری ہیلتھ نے جواب دیا کہ اس کے لئے پی سی 2 تیار کیا گیا ہے اور خیبرمیڈیکل یونیورسٹی میں ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ سنٹر قائم کیا جارہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک وارڈ یا سنٹر سے کیا کام چلے گا تھیلیسیمیا سے لاکھوں بچے متاثر ہیں اور اس کے لئے کوئی ہسپتال نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اس کے لئے ایک ایسا بڑا ہسپتال ہو جہاں ان مریض بچوں کو تمام سہولیات میسر ہوں، والدین کس کرب سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ وہ کرسکتے ہیں جن کے بچے اس مرض میں مبتلاہوں، اس کے لئے حیات آباد میں علیحدہ ہسپتال ہونا چاہیے۔عدالت نے وفاقی بیت المال اور چیئرمین زکوۃ و عشر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا۔