مردان میں بالاخانہ میں بیٹھے گرو علی شان کہتے ہیں کہ ان کے لئے ویکسین لگانا بھی ضروری ہے کیونکہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح بیمار ہو سکتے ہیں مگر اب تک محکمہ صحت یا حکومت کے کسی بھی اہلکار نے ان کے ساتھ رابطہ نہیں کیا ہے۔
علی شان کہتے ہیں کہ وہ خود اس لئے نہیں جا سکتے کیونکہ عوامی جگہ پر لوگ ان کا مذاق اُڑاتے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اگر حکومت ہمارے ڈیروں پر آئے تو ہمیں آسانی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال انہوں نے خود ویکسین لگائی ہے نہ ان کے کسی اور چیلے نے، لیکن ضروری ہے کہ انہیں ویکسین لگائی جائے تاکہ اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
ڈی آئی خان میں کورونا ویکسین کے حوالے سے درپیش مسائل کے بارے میں ماریہ نامی خواجہ سرا کہتے ہیں کہ کورونا وباء کے دوران لاک ڈاؤن تھا اور ہمیں اجتماعات میں جانے سے روکا جاتا تھا، ”ہمارے مالی حالات بھی سخت متاثر ہوئے مگر حکومت نے ہماری کوئی مدد نہیں کی، ڈیرے پر کوئی حکومتی یا صحت کی ٹیم نہیں آئی مگر ہمیں اپنے گرو ہسپتال لے گئے جہاں ہم نے ویکسین لگوائی۔
ماریہ کے مطابق ویکیسن لگانے سے پہلے لوگ گھور گھور کے انہیں دیکھ رہے تھے اور انہیں ہراساں کرنے کی بھی کوشش کر رہے تھے، ”مگر ہم نے ویکسین لگائی اور واپس آ گئے۔”
پشاور میں خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ٹرانس ایکشن الائنس نامی تنظیم کی صدر فرزانہ اپنی خواجہ سرا برادری کو نشترہال کے کورونا ویکسین سنٹر ویکسین کیلئے لائی تھیں مگر ان کے پاس شناختی کارڈز موجود نہیں تھے تو انہیں محکمہ صحت نے کورونا ویکسین لگوانے سے انکار کر دیا۔
کورونا وباء کے دوران خواجہ سرا برادری کے مسائل اور کورونا ویکسین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وباء کے دوران پشاور میں ان کی برادری مالی مشکلات کا شکار رہی مگر خیراتی اداروں نے ان کے مسائل گزارے کی حد تک حل کر لئے تھے لیکن اب مسئلہ ان کی برادری کو کورونا ویکسین لگوانے کے حوالے سے ہے۔
فرزانہ کہتی ہیں کہ ان کی برادری میں بیشتر خواجہ سراؤں کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہوتے اور ویکسین لگانا شناختی کارڈ کے علاوہ نہیں ہو سکتا، ”خواجہ سراؤں کو ہمارے معاشرے میں بری نظر سے دیکھا جاتا ہے حتی کہ والدین بھی ان کو اپنے بچے تصور نہیں کرتے اس لئے آج ان کو کورونا ویکسین لگانے میں مشکلات درپیش ہیں۔”
فرزانہ آگے کہتی ہیں کہ ان کے خواجہ سراؤں کو کورونا کے بارے میں علم بھی نہیں مگر انہوں نے اس بات پر اپنی برادری کو قائل کیا ہے کہ یہ ایک جان لیوا مرض ہے اور کورونا ویکسین کی وجہ سے ہی آپ کی جان بچ سکتی ہے لیکن انہیں یہاں بھی محرومی کا سامنا ہوا۔
پشاور کے نشترہال میں کورونا ویکسین سنٹر کے انچارج ڈاکٹر ریاض برکی کا کہنا ہے کہ این سی او سی پالیسی کے تحت جن افراد کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہوتے تو وہ ویکسین لگانے کے اہل نہیں ہو سکتے لیکن خواجہ سرا برادری پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ کے ذریعے عدالت میں درخواست کر سکتی ہے جس پر عدالت ان کے شناختی کارڈ والدین کی بجائے انکے گرو کے نام بنوانے کا حکم دے سکتی ہے، تب ہی ان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر برکی کہتے ہیں کہ تاحال نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے حوالے سے ان خواجہ سراؤں کیلئے پالیسی مرتب نہیں کی گئی جن کے شناختی کارڈز نہ ہوں، جو کورونا وباء کے خاتمے میں ایک چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پشاور میں اب تک 80 فیصد سے زیادہ خواجہ سراؤں کو ویکسین لگائے جا چکی ہے اور یہاں پر خواجہ سراؤں کو باقاعدہ ایک مخصوص شخص ویکسین لگواتا ہے جنہیں صرف ایک ڈوز والی ویکسین لگائی جاتی ہے اور بار بار آنے کی زخمت نہیں دی جاتی۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے ڈاکٹر امتیاز کہتے ہیں کہ اگر کسی خواجہ سراء کے پاس شناختی کارڈ نہ ہو تو اس کے لئے ایک مخصوص پروسیس ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کے لئے مخصوص کاؤنٹر بھی بنا سکتے ہیں یا ان کے ڈیروں پر ٹیم بھی بھیجی جا سکتی ہے بشرطیکہ ان کا فوکل پرس ان کے ساتھ رابطہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے خواجہ سراؤں کے ویکیسن کا ڈیٹا جمع نہیں کرایا ہے لیکن انہیں یقین ہے کہ وہ کور ہو چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کو کورونا بیماری کا مسئلہ ہوتا تو وہ ضرور ہمارے ساتھ رابطہ کرتے، "دراصل جب ہم کسی مخصوص گروپ کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو اس کے فوکل پرسن سے رابطہ کرتے ہیں اور انہیں ویکسین لگائی جاتی ہے لیکن اب تک خواجہ سراؤں کی قیادت نے ہم سے رابطہ نہیں کیا ہے۔”
نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں عبدالستار مومند، ماہ نور خلیل اور صوبیہ خان نے حصہ لیا ہے۔