افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے، 22.8 ملین افراد کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا
پاکستان عالمی ادارہ خوراک کو افغانستان میں خوراک کی قلت کی سنگین صورتحال کو کم کرنے میں سپورٹ کرتا ہے کیونکہ افغانستان میں یہ بحران بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق افغانستان میں.8 22 ملین لوگ خوراک کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔
اینٹی گریٹڈ فوڈ سیکورٹی کلاسیفی کیشن فیز 4 اسسمنٹ کے مطابق افغانستان میں 8.7 ملین لوگوں کی حالت انتہائی خراب ہے، اگر اس بحران کے خاتمہ کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو صورتحال اور بھی ابتر ہو سکتی ہے۔
عالمی ادارہ خوراک نے افغانستان میں اس بحران کو کم کرنے کے لئے ایمرجنسی بنیاد پر خوراک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے، اس سلسلہ میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے افغانستان کو اٹا بھیجنا شروع کر دیا ہے جس میں طورخم کے راستے 200 ٹرکوں کے زریعے 10 ہزار میٹرک ٹن اٹا بھیجا جا رہا ہے۔
اس حوالہ سے عالمی ادارہ خوراک کے کنٹری ڈائریکٹر کریس کے نے کہا کہ ڈبلیو ایس پی منسٹری فوڈ سیکورٹی اور کامرس کے تعاون سے افغانستان کو آٹے کی کھیپ بھیجی جا رہی ہے جو خوراکی بحران سے دوچار افغانیوں کو زندگی بچانے کا ایک اہم اور بڑا سبب ہو گا۔ اس ضمن میں افغانیوں کی مدد کے لئے طورخم اور چمن سرحدات کے علاوہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان ہوائی سروسز سہولت دینے کا پاکستانی حکومت کا خوش ائند اقدام ہے، اس بحران کو کم کرنے کی غرض سے ہوائی سروسز کو استعمال میں لانا ایک کلیدی اقدام ہے جس سے ڈبلیو ایس پی کی کوششوں میں بہت آسانی ہو گی، پاکستان نے افغانستان میں ڈبلیو ایس پی کی امدادی کاروائیوں کو سراہا ہے اور افغانیوں کو سپورٹ کرنے کے عمل کو بہترین اقدام قرار دیدیا ہے۔
کنٹری ڈائریکٹر نے کہا کہ ڈبلیو ایس پی 2020 میں نوبیل امن پرائز جیت چکا ہے کیونکہ ڈبلیو ایس پی نے امن و امان قائم کرنے، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، قدرتی آفات اور استحکام و خوشحالی کے حوالہ سے بڑے اقدامات اٹھائے ہیں۔
ملک میں خوراک کا بحران سابق حکومت کی میراث ہے۔ طالبان
طالبان حکومت کے نائب وزیر صحت نے کہا ہے کہ افغانستان میں خوراک کا بحران دراصل سابقہ حکومت کی چھوڑی ہوئی میراث ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری پر امداد کے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہونے کا الزام بھی عائد کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان حکومت کے نائب وزیر صحت عبد الباری عمر نے کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے جو سابقہ حکومت میراث کے طور پر چھوڑ گئی ہے اور وہ ہے خوراک کی قلت کا مسئلہ۔
انہوں نے ورلڈ فوڈ پروگرام کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پانچ برس سے کم عمر کے تقریباً 32 لاکھ بچے اس برس کے اواخر تک شدید قلت تغذیہ کے شکار ہو جائیں گے، امریکی حمایت یافتہ سابقہ حکومت نے اس تباہی کو ٹالنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
عبدالباری نے مزید کہاکہ بیس برس تک صحت کا شعبہ غیرملکی امداد پر منحصر رہا، ایسا کوئی بنیادی کام نہیں کیا گیا کہ ہیلتھ کیئر کا انفراسٹرکچر اور اس کے وسائل باقی رہ سکتے۔
طالبان رہنما نے کہا کہ غیرملکی عطیہ دہندگان اور غیرحکومتی تنظیموں نے ہر چیز کے لیے مالی امداد فراہم کی لیکن کوئی کارخانہ تعمیر نہیں کیا گیا، گھریلو وسائل کا کوئی استعمال نہیں کیا گیا۔