کسب گر کون ہیں اور کیا گاؤں دیہات میں یہ اب بھی پائے جاتے ہیں؟
ناہید جہانگیر
”اٹھ جاؤ یہ گاؤں ہے آپ کا شہر نہیں!” ساتھ میں رضائی بھی اٹھاتی، ناشتہ کھانا پینا سب اسی کی ذمہ داری تھی۔
جب بھی پشاور سے گاؤں کسی بھی غمی و خوشی میں شرکت کے لیے جاتے تو کچھ خاص چہرے دیکھنے کو ملتے جو ہمارے رشتہ دار نہیں تھے لیکن گھر کے تمام کام کاج وہی کرتے، جھاڑو ،برتن دھونے کے علاوہ ناشتہ کھانا بھی وہی تیار کرتے، لیکن وہی چہرے عام دنوں میں نظر نہیں آتے تھے۔ دادی اکثر کہتیں کہ کسب گر کی دعا اور بددعا لگتی ہے۔ لیکن وہ کیا اور کون ہوتے ہیں پتہ نہیں تھا۔
چارسدہ کے چاول، ”کدڑ”، رجڑ مٹھائی کے علاوہ آس پاس کے گاؤں میں کسب گر وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی غمی و خوشی کے موقع پر لوگوں کے گھر کام کاج کرتے ہیں، مرد حجرے کے کاموں کو اور خواتین گھر کے کاموں کو اس طرح دل جوئی سے کرتی ہیں کہ بچپن میں اکثر سوچتی یہ کون سی خواتین ہیں جو سارا کام کرتی ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ نہیں کہ گاؤں میں جو لوگ امیر ہوتے ہیں صرف ان کے ہاں کسب گر گھریلو کام کاج کرتے ہیں بلکہ یہ گاؤں کے ہر امیر غریب کے گھر میں کرتے ہیں، ان کی کمائی گھر کا بچا ہوا کھانا اور ساتھ میں اپنی حیثیت کے مطابق پیسے ہوتی ہے۔
شادی ہو تو دلہن کو ڈولی میں کسب گر ہی گھر کے اندر لے جاتے ہیں، تو دولہا کے گھر والے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ پیسے، دوپٹہ، سوٹ بلکہ بعض تو بکرا یا مرغی صدقے کے طور پر دیتے ہیں۔ لیکن اس طبقے کے لوگ خود سے رقم کا مطالبہ نہیں کرتے۔ سب خود اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نا کچھ دے دیتے ہیں۔
دادی اماں ان لوگوں کے معاملے بہت کیئرنگ تھیں اور سب بہوؤں کو ہدایت تھی کہ ان کے معاملے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ کسب گر کی دعا اور بددعا دونوں لگتی ہیں۔
کسب گر وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آباؤ اجداد سے نسل درنسل لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ سارا سال شادی بیاہ کا انتظار کرتے ہیں اور پھر مرد کھانا بنانے سے لے کر حجرے کی صفائی ستھرائی جبکہ خواتین گھر کا سارا کام سنبھالتی ہیں۔
وہ رشتہ دار جو شہر سے گاؤں جاتے تو بہت خوش ہوا کرتے تھے کہ گھر کے کاموں کے جھنجھٹ سے آزادی ملی۔ شادی بیاہ یا غم وغیرہ گاؤں میں ہوتا تو کافی سکون ہوتا، گھر کے کام کاج نہیں کرنے پڑتے تھے۔ شہر میں تو گھر کے کام بھی خود کریں اور مہمانوں کی خاطر مدارت بھی! شہر میں بھی کام والیاں ہوتی ہیں جو معاوضے پر شادی بیاہ کے گھر کام کرتی ہیں لیکن کسب گر وہ خاص طبقہ ہے جو آباؤاجداد سے اسی پیشے کے ساتھ منسلک ہے، ان کا کوئی اور کام دھندہ نہیں ہوتا اور نا کرتے ہیں، اپنا کام خوش اسلوبی اور دلجوئی سے کرتے ہیں، گاؤں کے سب امیر غریب لوگ ان خدمت گاروں کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔
وہ وقت گزر گیا اب نہیں پتہ کہ اب بھی کسب گھر گاؤں میں پائے جاتے ہیں یا انہوں نے بھی اب پرانا پیشہ چھوڑ دیا ہے۔