جرائم

ملاکنڈ میں قتل ہونے والے محمد زادہ کو مہینہ پہلے اپنے انجام کا اندازہ ہو گیا تھا

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبر پختونخوا کے ضلع ملاکنڈ میں منشیات کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے محمد زادہ کو پیر کی شام نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ ضلع ملاکنڈ کے تھانہ سخاکوٹ پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول محمد زادہ کے بھائی عبدالجلال نے پیر کی رات پولیس کو بتایا کہ انہیں کسی نے فون پر اطلاع دی کہ بازار میں ان کے بھائی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں سخاکوٹ پولیس سٹیشن کے محرر گلاب غنی نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے انہیں اطلاع ملی کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے محمد زادہ کو قتل کر دیا ہے جبکہ ان کے بھائی کے مطابق ان کی کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں تھی۔

مقتول محمد زادہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے منشیات کے خلاف مہم اس وقت سے چلانا شروع کر دی جبکہ ان کے دو خالہ زاد بھائی منشیات کے عادی ہونے لگے اور اس وجہ سے ان کا خاندان مالی اور ذہنی طور پر شدید متاثر ہوا۔

محمد زادہ آگے کہتے ہیں کہ جب انہوں نے منشیات کی سمگلنک کے خلاف آواز اُٹھانا شروع کی تو سیکورٹی فورسز کے اہلکار انہیں منشیات فروشوں کی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور کرتے تھے۔

ویڈیو میں کہتے ہیں "میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا، منشیات کے خلاف کام کرنے والے ادارے موجود ہیں۔ یہاں پر خفیہ ادارہ سپیشل برانچ، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی بی موجود ہیں۔ کیا وہ اس بات کا پتہ نہیں لگا سکتے کہ کون منشیات فروش ہیں؟”

ایک دوسری ویڈیو میں کھلی کچہری کے دوران محمد زادہ کہتے ہیں کہ یہاں پر جو بندہ جرائم پیشہ اور منشیات فروشوں کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے اسے دھمکیاں دی جاتی ہیں جبکہ جرائم پیشہ افراد ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے دفاتر میں بیٹھے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کھلی کچہری کے دوران مطالبہ کیا کہ انہیں منشیات فروشوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں لہذا انہیں تحفظ دیا جائے۔

محمد زادہ نے 12 اکتوبر کو اپنی فیس بک پوسٹ میں اپنے خلاف قتل کے منصوبے میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے بارے میں بتایا تھا "اگر مجھے کچھ ہوا تو میری اور میرے خاندان کی تمام دعویداری ڈپٹی کمشنر الطاف شیخ صاحب پر ہو گی۔”

محمد زادہ کے بہیمانہ قتل کے خلاف منگل کی صبح سخاکوٹ اور دوپہر کو پشاور پریس کلب کے سامنے سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین مطالبہ کر رہے تھے کہ محمد زادہ کے قتل میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

محمد زادہ کے قتل کے بعد ممبر قومی اسمبلی جنید اکبر نے ایک خط کے ذریعے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان سے واقعہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ مقامی انتظامیہ کی زیرنگرانی قتل کے واقعے کی شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں جس پر وزیراعلٰی محمود خان نے ایکشن لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر الطاف احمد شیخ اور اسسٹنٹ کمشنر فواد خٹک کو عہدے سے فارغ کر دیا۔

وزیراعلٰی محمود خان نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو اپنے عہدوں سے فارغ کر کے انکوائری کا حکم دیا ہے۔

ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران مظاہرے میں موجود انسانی حقوق کے کارکن شہنام خان نے بتایا کہ منشیات فروشوں کے خلاف آواز اُٹھانے والے افراد کو قتل کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ منشیات فروشوں کے ساتھ ضلعی انتظامیہ ملی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا "یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ ایک بندہ پہلے ہی سے آپ کو اپنے قتل کے بارے میں آگاہ کرے اور پھر بھی آپ اسے تحفظ نہیں دے رہے تو عوام یہ بات تسلیم کریں گے کہ ضلعی انتظامیہ منشیات فروشوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔”

شہنام کے مطابق مقتول کی نماز جنازہ صبح 11 بجے طے ہو چکی تھی مگر عوام نے قاتلوں کی گرفتاری تک مقتول کو دفن کرنے سے انکار کر دیا، ٹی این این کی رپورٹ فائل ہونے تک محمد زادہ کی نماز جنازہ ادا نہین کی گئی تھی۔

پاکستان میں صحافیوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں ایک اور سٹیزن جرنلسٹ محمد زادہ کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ ٹویٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ واقعے میں ملوث افراد کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔

یاد رہے کہ 8 نومبر کو قومی اسمبلی سے صحافیوں کے تحفظ کیلئے بل بھی منظور کیا گیا ہے جس میں صحافیوں کے قتل، اغواء اور تشدد کو جرم قرار دیا گیا لیکن صحافیوں کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے رواں سال جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان آزادی اظہار کے حوالے سے مزید پانچ درجے نیچے چلا گیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button