بلاگزعوام کی آواز

چترال: پچس کلومیٹر کا راستہ طے کرنے میں گھنٹے لگ جاتے ہیں

عثمان دانش

چترال کو، جو رقبے کے لحاظ سے خیبر پختونخوا کا سب بڑا ضلع تھا، موجودہ حکومت نے اپر اور لوئر چترال کے نام سے دو اضلاع میں تو تقسیم کر دیا لیکن وہاں کے مکینوں کی قسمت نے بدلنا نہیں تھا سو اب بھی وہی خستہ حال سڑکیں اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چترال میں ترقیاتی کاموں کا حال یہ ہے کہ ابھی تک چترال کی مین سڑک بھی مکمل پختہ نہیں ہے، ویسے تو چترال کے لوگ بڑے مہمان نواز ہیں لیکن لواری ٹنل کراس کرتے ہوئے جب آپ چترال داخل ہوتے ہیں تو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہی آپ کو خوش آمدید کہتی ہیں، لواری ٹنل سے آگے 20 سے 25 کلومیٹر سڑک انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ہے، سڑک کی تعمیر کئی سال پہلے شروع ہو چکی ہے لیکن اس سڑک نے جیسے مکمل نہ ہونے کی قسم کھائی ہو، یہی وجہ ہے کہ پچس کلومیٹر کا راستہ طے کرنے میں آپ کو گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔

مجیب الرحمن چترال کے مقامی ڈرائیور ہیں اور چترال سے پشاور اور اسلام آباد مسافروں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ 13 سال سے اپنی موٹر کار چلا رہے ہیں اور اس سڑک پر 24 گھنٹوں میں ایک بار ان کا گزر لازمی ہوتا ہے۔

مجیب نے بتایا کہ چترال روڈپر کام ہر سال شروع ہوتا ہے اور ایک آدھ مہینہ چلنے کے بعد بغیر کسی وجہ کے پھر بند ہو جاتا ہے، پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اتنا کام بھی نہیں ہوتا، آدھی یا بمشکل ایک کلومیٹر سڑک بن جاتی ہے اور پھر پورے سال کے لئے کام رک جاتا ہے، گزشتہ سال سے کام مکمل طور پر رک گیا ہے، سڑک کی تعمیر کے لئے جو مشینری لائی گئی تھی وہ بھی غائب ہے، جو میٹریل لایا گیا تھا وہ جگہ جگہ پڑا ہے لیکن ٹھیکیدار بھاگ گیا ہے، اب پتہ نہیں کام دوبارہ شروع ہو گا بھی یا نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جو بھی سیاح یہاں آتے ہیں وہ سڑکوں کی حالت دیکھ کر دوبارہ آنے سے کتراتے ہیں، سڑک خراب ہونے کی وجہ سے سیاحوں اور مقامی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، دھول اور گردوغبار سے علاقے مکین بھی تنگ آ گئے ہیں۔

سیاح اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟

زینی پاس پر پیرا گلائیڈر مقابلے دیکھنے کے لئے ملک بھر سے پیرا گلائیڈرز اور سیاح نے چترال کا رخ کیا تھا، ان میں لاھور سے تعلق رکھنے والی قرۃ العین بھی تھیں جن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان کو دوسری بار چترال دیکھنے کا موقع ملا لیکن چترال بالکل بھی نہیں بدلا، چترال بہت خوبصورت ہے اور سیاست کے لئے ایک انتہائی موزوں جگہ ہے، سفر بہت زیادہ ہے لیکن جب آپ چترال پہنچ جاتے ہیں تو قدرتی نظارے کی خوبصورتی ساری تھکاوٹ دور کر دیتی ہے۔

قرۃ العین نے مزید بتایا کہ چترال خوبصورت تو ہے لیکن روڈ کی جو حالت ہے وہ چترال کے لوگوں اور سیاحوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے، بہت ساری ایسی جگہیں ہیں جہاں سیاح جانا چاہتے ہیں لیکن سڑک ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کوئی نہیں جا سکتا، بدقسمتی سے سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے چترال کی سیاحت تباہ ہو رہی ہے، جب کوئی یہاں آتا ہے اور سڑکوں کی حالت دیکھتا ہے تو پھر دوبارہ یہاں آنے میں اس کی دلچسپی نہیں ہوتی، چترال میں بے شمار خوش ذائقہ پھل پیدا ہوتے ہیں لیکن سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے پھل خراب ہو جاتے ہیں اور مارکیٹ تک نہیں پہنچ پاتے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت سیب، ناشپاتی اور انگور کا سیزن ہے، سیب زمین پر پڑے خراب ہو رہے ہیں لیکن کسی کو ان کی پراوہ ہی نہیں ہے، اگر روڈ ٹھیک ہوں تو یہ پھل اس طرح ضائع نہ ہوتے، اگر یہ پھل ملک کے دیگر حصوں کو پہنچ جاتے تو اس سے چترال کے مقامی لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔

اپر چترال سے تعلق رکھنے والے صحافی سراج الدین نے بتایا کہ چترال سیاحوں کے لئے کشش رکھتا ہے لیکن راستے خراب ہونے کی وجہ سے سیاح وہاں جانے سے گریز کرتے ہیں، موجودہ حکومت سیاحت کو فروغ دینے کا دعوی تو کر رہی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو صرف سوات کی سیاحت کو فروغ دیا جا رہا ہے، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ صوبے کا وزیراعلی جس علاقے سے ہو ترقیاتی کام صرف وہاں پر نظر آتے ہیں، وزیراعلی محمود خان کا تعلق سوات سے ہے اور اس وجہ سے ان کی ساری توجہ اب سوات پر ہے، صوبے کے دیگر سیاحتی مقامات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے یہ علاقے سیاحوں کی نظر سے اوجھل ہیں، لواری ٹنل لنک روڈ پر گزشتہ 10 سال سے زائد عرصہ سے کام جاری ہے لیکن خدا جانتا ہے کہ یہ کب مکمل ہو گا، باقی کوئی پوچھنے والا تو ہے نہیں۔

پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت موٹروے، سوات ایکسپریس وے اور ڈی آئی خان ایکسپریس وے کی بہتری کے لئے دائر کیس کی سماعت کے دوران فوکل پرسن نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ لواری ٹنل سے آگے 7 کلومیٹر روڈ کو ایک مہینے میں مکمل کیا جائے گا جس پر چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیئے کہ ایسا لگتا ہے حکومت نے چترال کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، اپر چترال کی سڑکوں پر سفر کرنا ہی دشوار ہے، وہاں کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

عدالت نے این ایچ اے کو حکم دیا کہ روڈ کو ایک مہینے میں مکمل کرے اور کام کوالٹی کا ہونا چاہیے، عدالت نے این ایچ اے سے روڈ کی تعمیر سے متعلق رپورٹ بھی طلب کر لی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button