کابل : “بعض صحافی صرف اس لئے تشریف لائے تھے تاکہ افغان امور کے ماہر سمجھے جائیں“
عارف حیات
افغانستان میں طالبان حکومت کو بیس دن مکمل ہوگئے تھے، کسی کو صورتحال کی سمجھ نہیں آرہی تھی، طالبان قیادت رہن سہن، کاروبار، سماجی زندگی اور خواتین کے حقوق سے متعلق جو کچھ اعلیٰ سطح پر بیان کرتے تھے عام شہریوں کو یہ تشویش تھی کہ سڑک پر موجود نوجوان طالب ان احکامات پر عمل درآمد کس حد تک کرے گا؟
کابل میں الصبح الماری کا دروازہ زور سے بند ہونے کی آواز پر آنکھ کھلی، دوست بڑ بڑا رہا تھا، میں نے آواز دی کیا شور مچا رکھا ہے۔
دوست نے طوفانی انداز میں کمبل کھینچتے ہوئے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے بٹھایا۔ الماری کی طرف لپکا اور چیخ چیخ کر مجھے اپنے کپڑے، کوٹ، پتلون، نت نئی شرٹ اور جینز دکھا رہا تھا بلکہ دکھا کر فرش پر پھینک رہا تھا۔
“ یہ دیکھو،، ہزاروں روپے خرچ کرکے طالبان قبضے سے پہلے یہ تھری پیس سوٹ خریدا، اب یہ پہن کر دفتر جاؤں یا شلوار قمیض پہنوں”؟اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ معاشی حالات تو خراب ہو ہی گئے ہیں لیکن لوگ اپنی سوشل لائف کا کیا کرینگے؟
خواتین کے ساتھ مختلف مقامات پر بات کرنے کا موقع ملا جو بتا رہی تھیں کہ ٹوپی والا برقعہ پہنیں یا کالے رنگ کے عبایا سے کام چلائیں ۔۔ ایک خوبرو دوشیزہ نے بتایا کہ “بیرون ملک سے نئے سردی کے ملبوسات منگوائے ہیں اب دل کررہا ہے کہ یہ تمام رضائیوں میں پولیسٹر کی جگہ ڈال دوں کم سے کم کچھ کام تو آئینگے”۔
اب لائف اسٹائل کے بارے میں ایسی عجیب فکر شہریوں کو لاحق ہے لیکن ایسے میں جلال آباد کی شام اور راتوں کا تذکرہ چھیڑنا بھی عجیب لگ رہا تھا۔ افغانستان میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو طالبان سے انٹرویو یا انکی پریس کانفرنسز کور کرنے سے بلکل فرصت نہیں تھی حالانکہ سڑکوں پر رواں دواں زندگیوں کو بھی اپنی کہانی کسی کو سنانے کا شدت سے انتظار تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
‘طالبان ناشتہ کے علاوہ ہر وقت آئسکریم کھاتے ہیں’
"جب افغان طالب نے میرا میڈیا کارڈ دیکھ کر پوچھا (وٹ ہیری ڈینگ؟”)
جب افغانستان سے نکلنے کے لئے دو لڑکیوں نے ایک ساتھ شادی کی آفر کردی
مشران صحافیوں سے یہ بھی سنا کہ آتے جاتے راستے میں کسی سے بات نہ کیا کرو ہر جگہ جاسوس ہیں مطلب تمہارے گردن پر بھی ایک کیمرہ ہر وقت لگا ہوتا ہے۔
ایک سینئر صحافی نے مجھے خوب ڈرایا کہ حالات بلکل خراب ہیں، جس جگہ یہ بات بتائی وہاں سے نکلنے کے بعد مجھے ہر کوئی جاسوس لگ رہا تھا، ڈر جسم میں کوٹ کوٹ کے بھر گیا، رات کو کابل چھوڑنے کا پلان بنایا، لیکن عین اسی وقت سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں کابل کے سڑکوں پر سینئر صحافی موسیقی سے محظوظ ہورہے تھے، اب سمجھ میں آیا روح کو موسیقی کی غذاء چکھانے کے لئے جاوید امیر خیل کے کچھ گانے سنے۔
اگلے دن کے لئے انگور، انار، کابلی پلاؤ، قالین، چپل، برتن، پہاڑوں پر اور خود ساختہ ایک جگہ کے بارے میں کہانی تیار کرکے رپورٹنگ کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا۔ ٹینشن زدہ ماحول میں اس طرح کی ہلکی پھلکی تفریح والی خبریں امید کی کرن ہوتی ہے مگر اس بار کابل کیساتھ ساتھ لوگوں کے ذہنوں پر بھی قبضہ کیا گیا تھا جہاں کسی کے ساتھ تفریح سے متعلق بات کرنا مناسب نہیں تھا۔
ایسے بھی صحافی دیکھے جو کابل میں صرف اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے، شائد افغان امور کے ماہر بننے کی ہلکی سی کوشش کررہے تھے۔
عجیب بات یہ ہے کہ کسی صحافی سے ملاقات کے دوران افغانستان میں موجودہ حالات پر سوال کرتے تو جواب “ گذشتہ رات ذبیح اللہ مجاہد کے ساتھ عشائیہ اور ملا برادر غنی کے ساتھ ظہرانے کا حوالہ دینے کے بعد مذکورہ مسلئے کا جواب دیتے۔
ذبیح اللہ مجاہد جو آجکل بین الاقوامی شہرت کے حامل شخص ہیں، یہ کہنا سمجھ سے بالاتر ہے کہ انکے پاس اتنی زیادہ تعداد میں ظہرانے اور عشائیہ پر ملاقاتوں کے لئے وقت ہو۔
مجھ جیسے پہلی بار افغانستان رپورٹنگ جانے والے معمولی درجہ کے رپورٹروں کو تو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی لیکن کسی کی کوشش تو ہر بار کامیاب نہیں ہوسکتی۔
طالبان رہنماؤں کی پریس کانفرنس میں غیر ملکی صحافیوں کے سوالات پر افغان صحافیوں کو اعتراضات تھے، بلکہ پریس کانفرنس کے اختتام پر ضرور کہتے کہ بہتر ہوگا آپ لوگ ملکی معاملات کی بجائے افغانستان کے بین الاقوامی تعلقات سے متعلق سوالات پوچھتے۔
“ماہر افغان امور” کا ٹیگ افغانستان میں گالی سمجھی جاتی ہے، طالبان کے رہنماء نے خود ایک نجی محفل میں بتایا کہ “ دوسرے ملک کے رہائشی بھلا کیسے افغانستان امور کے ماہر بن جاتے ہیں”، یہ بات ایک حد تک ٹھیک لگ رہی ہے۔
کابل میں بور ہوا تو افغانستان کے حالات حاضر پر پشاور کے صحافی کا کالم پڑھا، سوچ سوچ کر حیران ہوا کے موصوف نے اتنے زیادہ معلومات کہاں سے حاصل کی ؟
کالم پڑھنا شروع کیا ۔۔ “ طالبان کو آپسی تنازعہ لے ڈوبے گی، “پنجشیر میں کیا ہوا،” طالبان رات کو کمبل یا رضائی ڈالتے ہی” طالبان بال کس دکان پر کٹواتے ہیں اور ذبیح اللہ مجاہد کے جوتے کی سائز کونسی ہے” ملا برادر نے کس درزی سے کپڑے سلوائے”، اور کابل میں رات کو دو بجے سڑکوں پر کیا ہوتا”۔
میرے خیال سے یہ صحافی افغانستان آنے کی بجائے پشاور سے محدود ماہر امور افغان بننے کی کوشش کررہا تھا۔لیکن اس سب کے باوجود یہ صحافی پشاور میں رہ کر بھی مجھے سپورٹ کرتا رہا.
اب نئے دور کے طالبان پریس کانفرنسز میں تابڑ توڑ سوالات کے جوابات دینے سمیت دیگر حکومتی پروٹوکول سے خوب واقف ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر انکے خلاف بیانات کی روک تھام کے لئے بھی ٹیمیں تشکیل دی ہیں کسی بھی واقعہ پر پھرتی سے ویڈیو پیغام جاری کرنے کا ہنر تو شائد پاکستانی سیاستدانوں سے سیکھا ہے۔
ہاں طالبان حادثات اور دھماکے ہونے پر بہت ہی معمولی سی مذمتی بیان جاری کرتے تھے، “شدید مذمت” کا لفظ بھی بیان میں درج ہوتا تھا شاید مذمتی بیانات طالبان حکومت کے لئے نیا تجربہ ہے۔(جاری ہے)