شمائلہ آفریدی
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت تحریک طالبان کے کچھ گروپس کے ساتھ رابطے میں ہے اور اگر وہ ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو ان کو معاف کر دیا جائے گا، میں نے جیسے ہی یہ خبر دیکھی تو مجھے وہ دور یاد آ گیا جب قبائلی اضلاع میں دہشت گردی عروج پر تھی۔ میں اب بھی جب اس وقت کو یاد کرتی ہوں تو بہت خوف محسوس کرتی ہوں کیونکہ اس وقت قبائل بہت ساری تکالیف میں مبتلا تھے جب ہماری دھرتی، قبائلی علاقہ جات، عسکریت پسندی کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ میں نے اپنے علاقے میں ہونے والے ان حادثات کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ بہت گہرائی سے محسوس بھی کیا ہے۔ میں نے وہ ادوار نزدیک سے دیکھے ہیں۔
آج یونہی 2009,10 کے پریشان کن دنوں کے بارے میں خیال آیا جب ہر طرف اداسی پھیل گئی تھی، وہ کس قدر ڈراؤنے دن تھے کہ ہر روز کسی نہ کسی گاؤں، دیہات، شہر سے دھماکوں کی خبر آتی تھی؛ بازار محفوظ تھے نہ کھیل کے میدان، مسجدیں محفوظ تھیں نہ تعلیم و علم کے مراکز، جب ادمی گھر سے کسی کام کیلئے نکلتا تھا تو واپس بخیریت پہنچنے کی امید نہیں ہوتی تھی۔ زندگی تو یوں بھی ایک ناپائیدار اور ناقابل بھروسہ شے ہے لیکن ان تاریک دنوں میں تو قبائلی لوگوں کو صبح سے شام ہونے کی امید بھی نہیں ہوتی تھی۔ ایسے وقت میں خوف کی وجہ سے لوگ ذہنی طور پر ڈپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے تھے۔
میری چھٹی کلاس کے امتحانات ہونے والے تھے اور یہ گرمیوں کے دن تھے۔ ہمارے علاقہ بوڑہ سب ڈویژن پشاور میں چار گرلز سکول تھے جن میں تین پرائمری لیول تک جبکہ ایک سکول میں آٹھویں تک پڑھایا جاتا تھا۔ یہ سکول ہمارے گاؤں سے 50 منٹس کی دوری پر تھا۔ ایک کتاب کے ایک پیراگراف کی ریڈنگ کیلئے میں روزانہ 50 منٹ سخت سردی ہو یا گرمی سنسان راستوں قبروں کے بیچوں بیچ میں سے گزر کر پیدل سکول جاتی تھی تاکہ ایک پیراگراف پڑھ کر علم میں اضافہ کر سکوں۔ یہ وہ وقت تھا جب طالبان کی وجہ سے علاقے میں خوف و دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ طالبان نے تعلیم و علم کے مراکز اور طالبات کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ گاوں میں دوسری لڑکیوں کی طرح جب سکول جاتی تھی تو میں بہت ڈرتی تھی، اکثر راستے پر ان خواتین کا گزر ہوتا تھا جو دور دور سے آ کر پانی یا لکڑیاں لے کر جایا کرتی تھی میری یہ کوشش ہوتی تھی کہ راستے میں کوئی مجھے مل جائے جہاں ان کے ساتھ سکول تک جا سکوں۔
میری والدہ کبھی کبھار آدھے راستے تک چھوڑ دیتی تھیں لیکن روزانہ جانا ان کیلئے ناممکن ہوتا تھا۔ طالبان نے علاقے کے ہر سکول میں پرچیاں گرا دی تھیں کہ لڑکیاں پردے میں سکول جائیں گی، پانچویں پاس کرنے کے بعد لڑکیاں سکول نہیں جائیں گی، ٹیچرز پردہ میں آئیں گی لڑکیاں اور لڑکے الگ الگ پڑھیں گے جب میں سکول جاتی تھی تو ایک طرف طالبان کی دہشت قائم تھی تو دوسری طرف سنسان راستوں سے بھی گزرنا پڑتا تھا۔ گرمی ہوتی تھی، دوپہر کی سخت دھوپ ہوتی تھی، وہیں گاؤں میں کتوں کا بھی راج چلتا تھا۔
بوڑہ میں بہت سے ایسے ”خیل” (گاؤں) ہوتے تھے، ایک کتا انہوں نے پالا ہوا ہوتا تھا، یہ کتے اتنے وفادار ہوتے تھے کہ اپنے خیل کے لوگوں کو کچھ نہیں کہتے تھے جبکہ باہر سے آنے والے افراد کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے اور ان پر اکثر حملہ آور بھی ہوتے۔ ایسا کچھ ایک دن میرے ساتھ بھی ہوا (مضمون لکھنے کا مقصد اس دور کو یاد کرنا ہے جہاں ہم قبائل نے دہشت گردی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کیا، میرے لئے یہ وہ بہت ڈراؤنا دن تھا، میں طالبان کا سامنا کر چکی ہوں جو میں ہمیشہ یاد رکھوں گی)۔
ایک دن جب میں سکول سے واپس آ رہی تھی تو راستے میں مجھے ایک خاتون ملی، جو ہمارے خیل سے تھیں، وہ آٹے کی بوری لے کر جا رہی تھیں، ان کو دیکھ کر میں بہت خوش ہوئی کہ چلو کوئی تو ملا جہاں اب میں بے خوف ہو کر ان کے ساتھ گھر چلی جاؤں گی ۔بڑے مزے سے چلتی رہی لیکن جب گاؤں کے نزدیک پہنچی تو میری ساری خوشی ڈر و خوف میں تبدیل ہو گئی۔ وہاں کچھ دکانیں تھیں جو شیراخیل مارکیٹ سے جانی جاتی تھیں، وہاں طالبان کا بہت بڑا ہجوم جمع تھا، بندوقوں اسلحہ سے لیس، گاڑیاں ان کے پاس کھڑی تھیں۔ میں نے سکول کا یونیفارم پہن رکھا تھا اور سکول بیگ بھی پہن رکھا تھا۔ ویسے تو میرا سامنا اکثر راستے میں ہو جاتا تھا لیکن اس بار جیسے ہی میں نے انہیں دیکھا مجھے ایسا لگا کہ اب میں بچ کر گھر نہیں جا سکوں گی، میں کافی ڈر گئی، اس خاتون نے خود کو چادر میں لپیٹا اور روڈ پار کر چلی گئیں جبکہ میرے پیروں نے جیسے طالبان کے سامنے سے گزرنے سے انکار کر دیا۔
کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا، سوچ رہی تھی کہ اب گھر کیسے جاؤں گی، پیچھے دیکھا تو ایک گاؤں تھا، واپس مڑی اور ایک گھر کے اندر جانے کی کوشش کی تو دیکھا کہ ایک کتے نے مجھے دیکھ کر بھونکنا شروع کر دیا اور میرے پیچھے بھاگتا ہوا آیا، میں آگے اور کتا میرے پیچھے، گاوں کی گلیوں میں ادھر ادھر بھاگتی رہی، تقریباً تین منٹ یہ بھاگ دوڑ چلتی رہی، آخر ایک گھر کے اندر پناہ لی، جو گلی کے آخری کونے میں تھا وہ کھنڈر نما گھر تھا جہاں مویشی بھی تھے۔میرے پیچھے گھر کے اندر کتا بھی گھس آیا، اکثر راستوں میں کتوں سے میرا سامنا ہوتا تھا لیکن اس بار ایک طرف طالبان کا خوف تو دوسری طرف کتا بھی کچھ زیادہ ہی اپنی اصلیت دکھا رہا تھا، گھر میں بندھے گائے بکریاں بھی یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔
میں بہت ڈر گئی تھی، تھک بھی چکی تھی، کتا کاٹنے ہی والا تھا کہ ایک لڑکی اندر آئی، اس نے کتے کے منہ پر پاؤں رکھا، کتا وہیں لیٹ گیا۔ میں نے ساری کہانی بیان کر دی اور کہا کہ کچھ بھی ہو لیکن میں اس راستے سے نہیں جاؤں گی، وہاں طالبان ہیں اور مجھے ڈر لگ رہا ہے، ایسے میں اس نے مجھے اسی گھر میں سے ایک دروازہ دکھایا جو باہر کی طرف نکلا ہوا تھا، اس نے مجھے اسی دروازے سے باہر نکال دیا جہاں سامنے میرے خیل کی دیواریں نظر آ رہی تھیں۔ جنہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے گھر پہنچ گئی۔
ایک طرف تو میں کافی ڈری ہوئی تھی، سانس بھی پھولا جا رہا تھا، میرا یہ حال دیکھ کر امی نے پوچھا، ”خیر تو ہے؟” میں نے سارا واقعہ بیان کر دیا اور کہا کہ میں دوبارہ سکول نہیں جاؤں گی۔ امی نے میرا حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ تمھیں یہ جہدوجہد جاری رکھنا ہو گی، ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب وطن پر پھیلی ہوئی تاریکی دوبارہ روشنی میں تبدیل ہو جائے گی۔
والدہنے حوصلہ دیا، میری بھی ہمت تھوڑی بہت بندھ گئی اور اگلے دن دوبارہ پرسکون ہو کر سکول کیلئے روانہ ہو گئی۔ ادھر حالات مزید خراب ہوتے ہو گئے لیکن ان حالات میں ہی میں نے چھٹی کلاس کا امتحان دیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب سکول بند ہو گئے اور میں اپنے علاقے میں مزید تعلیم جاری نہیں رکھ سکی، اور اسی وجہ سے میری والدہ نے کراچی جانے کا فیصلہ کر لیا جہاں پہنچ کر میں نے اپنا تعلیمی سفر پھر سے شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے لیکن وہ دن آج بھی مجھے یاد ہے اور شاید میں اس کو کبھی بھول نہ پاؤں۔