جرائم

خیبر پختونخوا: پچھلے پانچ سالوں میں 73 خواجہ سرا قتل ہوئے انصاف کسی کو نہ مل سکا

سلمیٰ جہانگیر

 

‘وہ دیکھو ہیجڑا جا رہا ہے یہ آوازیں بچپن سے اب تک ساتھ نہیں چھوڑتیں’ یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والے خواجہ سرا نمکین کا.
ایک غیر سرکاری تنظیم بلیووینز جو خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرتی ہے کے ڈیٹا کے مطابق 2015 سے دسمبر 2020 تک تقریباً73 خواجہ سرا قتل, جبکہ 1500 کو جنسی تشددکا نشانہ بنایا گیا اور تقریباً 11000 کے قریب تشدد کا شکار ہوۓ ہیں.
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے تیمور کمال کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر خواجہ سراؤں کے تشدد کےکیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اعداد وشمار کے لحاظ سے روزانہ 2 یا 3 کیسزرپورٹ ہوتے ہیں. سارے کیسز میں ایف آئی آر تک درج ہو جاتے ہیں اور کاررائی بھی ہوتی ہے. تیمور کمال کے مطابق اب تک 1500 سے زیادہ ایف آئی آر درج کئے جا چکے ہیں.

خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کی تعداد کے بارے میں صحیح ڈیٹا تو دستیاب نہیں تاہم مختلف سروے اور فلاحی تنظیموں کے مطابق صوبہ میں خواجہ سراؤں کی مجموعی تعداد تقریباً 50 ہزار ہے۔

بلیووینز کے مطابق زیادہ تر خواجہ سرا اپنے قریبی دوستوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتے ہیں جسکی بڑی وجہ دوستی سے انکار ہے.

پشاور سے تعلق رکھنے والےخواجہ سرا نمکین کا کہنا ہے کہ ٹرانسجینڈر پر تشدد اپنے گھر سے بچپن میں ہی شروع ہو جاتی ہے کیونکہ جب بچہ بچپن سے لڑکیوں کی طرح حرکتیں کرتا ہے یا لڑکیوں کی طرح چلتا پھرتا ہے جب گھر آتا ہے تو والدین اسکو مارتے پیٹتے ہیں کہ اسکے دوپٹہ لینے سے یا لپ سٹک لگانے یااسکی دوسری حرکتوں کی وجہ سے دوسرے بچے اور لوگ اسکو غلط ناموں سے پکارتے ہیں۔ نمکین نے بتایا کہ فیملی اور گھر کی طرف سے ایک ٹرانسجینڈر تشدد کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے اور تشدد کرنے والوں میں خواجہ سرا کا بڑا بھائی, بڑی بہن, چچا یا ماموں شامل ہوتا ہے.. انہوں نے بتایا کہ بچپن سے تشدد شروع ہوتا ہے اور زندگی کے ہر قدم پر خواجہ سرا اسکا شکار ہوتے رہتے ہیں.

سکینہ بی بی(فرضی نام) جس کا ایک بیٹا خواجہ سرا ہے کا کہنا ہے کہ قیامت ان پر گزرتی ہے جسکا بیٹا خواجہ سرا ہوتا ہے، چاہتے ہوئے بھی اپنے جگر گوشے پر سختی نہیں کر سکتے لیکن معاشرہ ہمیں انکے ساتھ سختی کرنے پر مجبور کرتا ہے اور اسی طرح ان پر تشدد کا سلسلہ والدین شروع کرتے ہیں.

نمکین نے مزید بتایا کہ خواجہ سرا اپنے گرو کے ہاتھوں بھی تشدد کا شکار ہوتا ہے. خواجہ سرا کمیونٹی کی صدر اور گرو
فرزانہ کا کہنا ہے جب انکے گھر مہمان آتے تو والدین اسکو مہمانوں سے چھپاتے تھے کیونکہ اسکے والدین فرزانہ کو مہمانوں کے سامنے لانے پر اپنی بے عزتی سمجھتے تھے انہوں نے بتایاکہ اسے آٹھ سال کی عمر میں گورو کے حوالے کیا گیا حالانکہ اسکی یہ عمر ماں کے سینے سے لگ کر پیار کرنے کی تھی.پھر ان جیسے بچوں کی تربیت صرف ناچ گانے کی حد تک ہو جاتی ہے. نا ہی انکو تعلیم دی جاتی ہے اور نا ہی انکو جینے کا صحیح سلیقہ سکھایا جاتا ہے.
جب ہر طرف سے مسترد کئے جانے پر مجبور ہو کر کوئی بھی خواجہ سرا کمیونٹی میں ایک بار شامل ہو جاتا ہے تو گورو ہی اسکا سب کچھ ہوتا ہے، وہی ماں اور وہی باپ اور خواجہ سرا کا جینا مرنا اپنے گورو کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

خواجہ سرا پر تشدد کے حوالے سے ایک اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں 26 خواجہ سرا قتل ہوئے اسی طرح 2016 میں قتل ہونے والے خواجہ سراؤں کی تعداد 22 جبکہ 2017 میں 8 اور 2018 میں بھی 8 اور 2019 اور 2020 میں 9 خواجہ سرا قتل ہوئے۔

نمکین نے مزید بتایا کہ پروگرام کے دوران بھی خواجہ سرا مختلف لوگوں کی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں. آجکل وائلنٹ گروپ بنے ہیں جو خواجہ سراؤں کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن اصل تشدد ٹرانسجینڈر کے intimate partner کی طرف سے اس پر ہوتا ہے.
نمکین نے بتایا کہ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خواجہ سرا بے سہارا ہوتا ہے اسکا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا وہ بہت بے بس اور مجبور ہوتا ہے.
بلیووینز کےمطابق دوسرے نمبر پر خواجہ سرا کا اپنا خاندان ہوتا ہے جو غیرت کے نام پر انکو قتل کرتے ہیں یا تشدد کا نشانہ بناتے ہی. اور تقریباً 5% عام لوگ ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں خواجہ سرا مار پیٹھ کا شکار ہو جاتے ہیں.
خواجہ سراکمیونٹی کے مطابق ان واقعات میں ملوث بیشتر افراد بچ نکلتے ہیں جسکی وجہ سے باقی خواجہ سرا خوف کی زندگی گزارتے ہیں.
خواجہ سرا کمیونٹی کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کوصرف مارپیٹ جیسے واقعات کا سامنا نہیں ہے بلکہ گینگ ریپ، جنسی تشدد، صنفی تشدد جیسے جرائم بھی شامل ہیں جنکی تعداد تقریبا 1130 بتائی جاتی ہےاسکے ساتھ ساتھ معاشرے میں خواجہ سراکو غلط سمجھنا، ان کو گالیاں دینا، پولیس تھانوں اور موسیقی کی محلفوں میں تشدد کا نشانہ بنانا بھی شامل ہیں.
یاد رہے کہ خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کرنے والے افراد کو پولیس جلد گرفتار کر لیتی ہے لیکن تفتیشی افسران کی عدم دلچسپی اور بری تفتیش کی بنیاد پر ملزمان عدالت سے بری ہوجاتے ہیں۔
محکمہ پولیس کے مطابق خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کا بل جو 2018 میں پاکستانی قانون کا حصہ بن چکا ہے جس میں ٹرانس لوگوں کو تعصب اور ہراساں کرنے کی واضح طور پر پابندی ہے اور صحت اور عوامی مقامات تک ان کے حقوق کے تحفظ کیا گیا ہے۔
صوبائی محتسب رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ انکے پاس خواجہ سراؤں پر تشدد کے حوالے سے دو کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے ایک کو واپس لیا گیا جبکہ دوسرا کیس بینکنگ محتسب کے حوالے کر دیا گیا ہے.
سماجی کارکن تیمور کمال کا کہنا ہے کہ روزانہ کے حساب سے خواجہ سراؤں پر تشدد کے حوالے سے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں لیکن قانون کی طرف سے کوئی خاطر خواہ عملدرآمد نہیں ہوتا. تیمور کمال نے بتایا کہ جتنے بھی خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں تو ابھی تک ایک مجرم کو بھی سزا نہیں ملی سواۓ خواجہ سرا علیشاہ کے مجرم کو.
انہوں نے بتایا کہ خواجہ سرا علیشاہ کو 2015 میں قتل کیا گیا تھا اسکے ملزم کو 2020 میں ضمانت پر رہا کیا گیا.یہی وجہ ہے کہ کیسز تو روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی کیس نا تو حل ہوتا ہے اور نا ہی انکو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے. تشدد کے کیسز روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں ایف آئی آر بھی کٹتے ہیں ملزم بھی پکڑے جاتے ہیں لیکن کمزور ایف آئی آر اور ناقص تفتیش یا خواجہ سراؤں کے ساتھ راضی نامہ ہو جاتا ہے جسکی وجہ سے ملزموں کو با عزت بری کیا جاتا ہے اور وہ سزا سے بچ جاتے ہیں.
جتنے بھی خواجہ سرا ابھی تک قتل ہوئے ہیں ان میں سے اکثریت عزت کے نام پر قتل ہوتے ہیں یا اپنے پارٹنر کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں کچھ کو اپنی فیملی قتل کرتی ہے.
خواجہ سراؤں کے والدین یا اہل خانہ قاتلوں کو معاف کر کے ان سے بطور خون بہا پیسے بھی لے لیتے ہیں اور اسی طرح بہت سےکیسز فائلزبغیر کسی حل کے بند ہو جاتے ہیں.

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button