خیبر پختونخواعوام کی آواز

‘مور بی بی کہلانے والی زیتون بانو کبھی اپنے نظریے سے پیچھے نہیں ہٹیں’

رفاقت اللہ رزڑوال

پشتو زبان کی معروف ادیبہ زیتون بانو کی نماز جنازہ پشاور کے علاقہ عاشق آباد میں ادا کی گئی جس میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے معروف شعراء، صحافیوں اور مصنفین  سیمت کثیر تعداد میں  لوگوں  نے شرکت کی۔

زیتون بانو عرصہ دراز سے بیمار تھیں اور گزشتہ روز طویل علالت کے بعد 83 سال کے عمر میں وفات پا گئیں۔ زیتون بانو نے گزشتہ 50 سال سے اپنے تحاریر کے ذریعے پشتو ادب کی خدمت کی اور اسی عرصہ میں ایک درجن سے زیادہ کتابیں لکھے جن میں بیشتر افسانوں کے ہیں۔

نمازہ جنازہ کے بعد  پشاور یونیورسٹی میں شعبہ  پشتو  کے استاد پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسفزئی نے  ٹی این این کو بتایا کہ زیتون بانو نے پشتو زبان اورخواتین کو شعوری طور پر بیدار کرنے کیلئے انتہائی مشکل حالات میں اپنی جدوجہد شروع کی تھی جن کی بدولت آج ادبی دنیا میں خواتین کیلئے ماحول سازگار ہے کہ وہ اپنی علمی اور ادبی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

اباسین یوسفزئی کے بقول زیتون بی بی تقریباً ایک درجن سے زائد کتابوں کی مصنفہ تھی جن میں زیادہ تر کتابیں افسانوں کی ہیں، کتابوں میں پشتو کے افسانے ہندارہ، ژوندی غمونہ، خوبونہ، زما ڈائری اور نیزہ وڑی جبکہ پشتو شاعری میں منجیلی شامل ہیں اور اسی طرح اردو میں برکت کا سایہ اور شیشم کا پتہ موجود ہیں۔

پروفیسر اباسین نے زیتون بانو کی خدمات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ریڈیو میں بطور پروڈیوسر، صحافی اور معلمہ کے حیثیت سے خدمات سرانجام دئے ہیں، "جن کی بدولت دیگر خواتین بھی پوری تسلی کے ساتھ ادبی خدمات سرانجام دے رہے ہیں”۔

سینئر صحافی اور ادیب امجد علی خادم نے زیتون بانو  کے حوالے سے  ٹی این این کو بتایا کہ زیتون بانو ادبی حلقوں میں ‘مور بی بی’ کے نام سے جانے جاتی تھی اور وہ سب کے ساتھ ماں کی طرح پیش آتی تھی۔

انہوں نے ‘مور بی بی’ کی موت ایک صدی کی موت قرار دی اور کہا کہ زیتون ایک ایسی ادیب اور شاعرہ تھی جن کی کردار اور خدمات انکی زندگی پر بھی سراہا گیا ہے۔

امجد علی خادم کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے تصانیف کا ابتداء ایک ایسے دور میں کی تھی جہاں پر خواتین کیلئے شعرو شاعری ایک جرم سمجھا جاتا تھا اس لئے وہ نامعلوم ناموں سے اپنے تحاریر شائع کرتی تھی لیکن کبھی اپنی نظرئے سے پیچھے نہیں ہٹی ہے۔

سیاسی اور سماجی حلقوں میں زیتون بانو کی موت پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ مرحومہ زيتون بانو اردو اور پشتو ادب کے میدان کا ایک درخشاں ستارہ تھی۔

انہوں نے انکی تحاریر پشتو ثقافت اور پشتون معاشرے کی بھر پور عکاس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرحومہ  نے قلم کے ذریعے عورتوں میں بیداری پیدا کرنے اور انکے حقوق کیلئے شعوری کوشش کی۔

پشتون سیاستدان افراسیاب خٹک نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے کہ زیتون بانو کی موت ہر پشتو زبان بولنے والے کیلئے افسوس کا مقام ہے۔

"انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے بیسویں اور اکیسویں صدی میں پشتو ادب کی بھرپور خدمت کی ہے اور انکے افسانے ہمارے معاشرے کے عکاس ہے، اللہ تعالٰی مرحومہ کی مغفرت فرمائیں”۔

زیتون بانو پشاور کے علاقہ سپینہ وڑئ میں 18 جون 1938 کو پیر سلطان محمود کے گھر پیدا ہوئی، اُنکے والد پیر سلطان محمود اور دادا عبدالقدوس بھی شاعر تھیں۔

بانو نے اپنی ابتدائی تعلیم اسلامیہ کالجیٹ اور میٹرک الیزبت گرلز سکول سے حاصل کی تھی اور پشاور یونیورسٹی سے اردو اور پشتو میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔

زیتون بانو بہت عرصہ تک ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن میں بھی خدمات سرانجام دے چکی تھی، ڈرامے بھی لکھے اور پی ٹی وی پر نشر بھی ہوئے ہیں۔

بانو نے اپنے خدمات کی بدولت کئی ایوارڈز بھی لئے ہیں جن میں حکومت پاکستان کی جانب سے صدراتی ایوارڈ (پرائیڈ آف پرفامنس) سال 1997 میں لیا تھا اور اسکے ساتھ اباسین آرٹ کونسل اور گندھارا آرٹ کونسل سے مڈلز حاصل کئے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button