حکومت و قبائلی ارکان میں لڑائی، خیبر پختونخوا اسمبلی میدان جنگ بن گئی
خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکومت اور قبائلی اضلاع ارکان کے مابین لڑائی اور گالم گلوچ کے باعث ایوان ایک مرتبہ پھر میدان جنگ بن گیا، قبائلی ارکان نے ضم اضلاع کے ساتھ مبینہ حکومتی ناانصافی اور سپیکر کی جانب سے بولنے کی اجازت نہ دینے کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر کے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور شدید نعرہ بازی کے ساتھ ایجنڈا کی کاپیاں ہوا میں اچھال دیں۔
دوسری جانب صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی اور حکومتی اتحاد جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بلاول آفریدی کے مابین غیرشائستہ زبان کے کھلے عام استعمال کے دوران بلاول آفریدی صوبائی وزیر پر حملہ آور ہو گئے تاہم ارکان اسمبلی نے انہیں دست و گریباں ہونے سے قبل پکڑ لیا، اس دوران کئی حکومتی اور اپوزیشن ارکان بیچ بچاؤ کراتے رہے، صورت حال بے قابو ہونے پر سکیورٹی اہلکار ایکشن میں آ گئے تاہم احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا سلسلہ بدستور جاری رہا، سپیکر نے ہنگامہ آرائی اور ہلڑبازی کے دوران ہی قانون سازی کا عمل مکمل کرتے ہوئے ایوان سے دو بلوں کی منظوری لی جبکہ حکومت نے تین بل ایوان میں پیش کئے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس پیر کے روز ڈپٹی سپیکر محمود جان کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس کے آغاز پر ہی قبائلی ارکان بشمول حکومت کی اتحادی جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی کے ممبران نے قبائلی اضلاع کے ساتھ مبینہ حکومتی ناانصافی اور نرسوں کی بھرتی میں قبائلی اضلاع کو نظرانداز کرنے کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا، احتجاجی ارکان نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر دھرنا دیا اور شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے ‘ایک ریاست دو دستور نامنظور’ کے نعرے لگائے، تاہم سپیکر محمود جان نے کہا کہ قبائلی ارکان بچوں کی حرکتیں اور سپیکر کو بلیک میل کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ مجھے کوئی بلیک میل نہیں کر سکتا۔
ڈپٹی سپیکر نے قبائلی ارکان کے احتجاج کے دوران قانون سازی کا عمل شروع کیا تو اپوزیشن ارکان نے بھی لوکل گورنمنٹ بل سے متعلق اپوزیشن کی ترامیم ایجنڈے میں شامل نہ کرنے کیخلاف احتجاج شروع کیا، اس دوران پیپلز پارٹی کی خاتون نگہت اورکزئی اپنی نشست کے سامنے میز پر کھڑی ہو گئی اور نعرہ بازی شروع کی جس کے بعد انہوں نے قانون سازی کا عمل روکنے کیلئے شوکت یوسفزئی سے مائیک چھین لیا جس پر ڈپٹی سپیکر نے رولز کا حوالہ دیتے ہوئے وارننگ دی۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ وہ گزشتہ 8 سال سے اسمبلی کے رکن چلے آ رہے ہیں جبکہ 18 سال انہوں نے بحیثیت صحافی اسمبلی کور کی ہے تاہم ایسی صورت حال کبھی نہیں دیکھی، انہوں نے کہا کہ سپیکر کیخلاف بھڑاس ایسے نہ نکالا جائے اگر کسی کو اعتراض ہے تو عدم اعتماد کی تحریک پیش کرے، یہ اسمبلی ہے چوک یادگار نہیں ایسی حرکتیں ناقابل برداشت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی ارکان پیسوں کے بل بوتے پر آنے والے لوگ ہیں یہ عوام کی خدمت نہیں کر سکتے جس پر بلاول آفریدی آپے سے باہر ہو گئے اور وہ شوکت یوسفزئی پر حملہ آور ہو گئے تاہم حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے شوکت یوسفزئی تک پہنچنے اور دست و گریبان ہونے سے قبل ہی دونوں کو پکڑ کر الگ کر لیا تاہم دونوں جانب سے شدید ہنگامہ آرائی اور غیرپارلیمانی جملوں کا تبادلہ جاری رہا، سپیکر نے اسی ہنگامہ آرائی میں ایجنڈے کی کارروائی مکمل کرنے کے ساتھ اجلاس آج بروز منگل دن دو بجے تک ملتوی کر دیا۔
دوسری جانب صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے وقفہ سوالات کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی کیلئے صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے قومی مالیاتی ایوارڈ کا تین فیصد حصہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے فنڈز کے استعمال اور ایک ایک پائی کا حساب دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
قبل ازیں پیپلز پارٹی کی خاتون رکن نگہت اورکزئی نے قبائلی اضلاع کی پسماندگی کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہر سال بجٹ میں ضم اضلاع کی تعمیر و ترقی کے نام پر اربوں روپے مختص کرنے کے اعلانات کرتی ہے تاہم ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا کیونکہ ضم اضلاع میں تعمیر و ترقی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں بلکہ قبائلی عوام اب بھی بدترین پسماندگی کا شکار ہیں، قبائلی اضلاع کیلئے فنڈز مختص ہوتے ہیں مگر جاری نہیں ہوتے۔
صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے کہا کہ قبائلی اضلاع کی پسماندگی کے خاتمے اور ترقی پر گزشتہ سال 48 ارب اور رواں سال 54 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے، پچھلے سال ترقیاتی بجٹ کا 90 فیصد اور جاری سال کے دوران 97 فیصد تک فنڈز خرچ کئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت قبائلی عوام کیساتھ تمام وعدے پورے کرے گی اور کوئی فنڈز لیپس نہیں ہوں گے، قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی پورے پاکستان کی ذمہ داری ہے اس لئے صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان قبائلی اضلاع کیلئے این ایف سی کا تین فیصد حصہ فراہم کریں، ہم ایک ایک پیسہ کا حساب دیں گے۔
ادھر خیبر پختونخوا اسمبلی کے قبائلی ارکان نے ضم اضلاع کے حقوق اور مبینہ حکومتی ناانصافیوں کے خلاف احتجاجی کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے قبائلی اضلاع میں بھرتیوں کی تحقیقات کیلئے وزیر اعلی کی قائم کردہ انکوائری کمیٹی مسترد کر دی ہے۔
آج صوبائی اسمبلی اجلاس کے بعد حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بلاول آفریدی اور اے این پی کے نثار خان مہمند نے قبائلی ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس ایوان کی تکریم کرتے ہیں، ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے، ہم نے اس حکومت کو بہت برداشت کیا لیکن حکومتی رویہ دن بدن تضحیک آمیز بنتا جا رہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے، 70 سال سے قبائلی عوام کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، ان کے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں ہم اپنے عوام کی محرومیوں کیلئے آواز اٹھانا چاہتے ہیں مگر سپیکر ہمیں بولنے کا موقع نہیں دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے قبائلی اضلاع کے ہسپتالوں کیلئے 481 نرس بھرتی کئے جن میں صرف 29 کا تعلق قبائلی اضلاع سے ہے باقی سوات، چترال اور دیر سے بھرتی کئے گئے ہیں، وزیر اعلی نے معاملہ کی انکوائری کیلئے سرکاری افسران کی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کو ہم مسترد کرتے ہیں۔
نثار مہمند نے کہا کہ ہم حکومتی ظلم و زیادتی کیخلاف مشاورت کے بعد احتجاجی تحریک کا اعلان کریں گے جس کے دوران وزیراعلی ہاوس، گورنر ہاوس اور صوبائی اسمبلی کا گھیراؤ کریں گے۔