محسن داوڑ کی نئی سیاسی جماعت کا پختونخوا کی سیاست پر کیا اثر ہوگا ؟
رفاقت اللہ رزڑوال
شمالی وزیرستان سے منتخب ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ کی قیادت میں نئی سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک مومونٹ کی بنیاد رکھی گئی۔
اس سلسلے میں گزشتہ روز پشاور میں ایک تقریب کا انقعاد ہوا جس میں محسن داوڑ ، افراسیاب خٹک، سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر عبدالطیف آفریدی، بشری ٰ گوہر اور جمیلہ گیلانی سیمت دیگر عہداران اور کارکنان نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اس موقع جماعت کے عہداران نے متفقہ طور پر محسن دواڑ کو چئیرمین ارگنائزنگ کمیٹی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ جبکہ جمیلہ گیلانی کو پارٹی کا ترجمان مقرر کیا گیا۔
پارٹی اعلان کے موقع پر محسن داؤڑ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انہوں نے پارٹی کا اعلان اسی بنیاد پر کیا ہے کہ کچھ سیاسی پارٹیوں میں موروثیت پائی جاتی ہے لیکن اسی پارٹی میں صرف نوجوان آگے ہونگے بلکہ اپنے سینئر قیادت سے مشورہ بھی لیں گے۔
محسن داوڑ نے کہا کہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے نہ صرف سیاست بلکہ تمام اداروں پر قبضہ کیا ہے تو ضرورت تھی کہ ایک سیاسی اور جمہوری پارٹی سامنے آئے اور اپنے وسائل کی تحفظ کیلئے جدوجہد کرے۔
محسن داوڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ سیاسی پارٹی بنانے کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ پشتون قوم کی حقوق کی تحفظ اور انکے وسائل پر دسترس رکھنے کیلئے ایک سیاسی خلاء موجود تھی اور اسی خلاء کو پُر کرنے کیلئے ہر شہر میں دوستوں سے مشاورت کی اور پارٹی بنائی۔
محسن کہتے ہیں کہ فی الحال پارٹی کا آئینی ڈھانچہ تیار کیا ہے جس کا پارٹی جھنڈا دو ( سرخ اور کالا) رنگ پرمشتمل ہوگاجبکہ اسی ڈھانچے کے تحت ایک مرکزی ارگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی اور یہی ارگنائزنگ کمیٹی ملک بھر میں دیگر ارگنائزنگ کمیٹیاں قائم کریگی اور اسی طرح ضلعی اور مقامی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائے گی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل پارٹی کی مرکزی قیادت افراسیاب خٹک، جمیلہ گیلانی، بشریٰ گوہر اور عبدالطیف آفریدی عوامی نیشنل پارٹی کے اہم عہدوں پر رہ چکے ہیں لیکن جب خیبرپختونخوا میں پشتون تحفظ موومنٹ تحریک کی بنیاد رکھی گئی تو مذکورہ شخصیات نے تمام تر توانائی اسی تحریک میں صرف کرنا شروع کر دی جس پر اے این پی کی قیادت ناراض تھی اور انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔
این ڈی ایم کی تشکیل نو کو سیاسی تجزیہ کار کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
پشتونوں کی حقوق کیلئے نئی پارٹی کی قیام پر سیاسی امور پر نظر رکھنے والے کچھ ماہرین اسے پشتونوں اور بالخصوص قبائلی اضلاع کے عوام کیلئے نیک شگون سمجھتے ہیں جبکہ کچھ اسے مزید پشتونوں کو تقسیم کرنے کی عملی کوشش سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پشتونون کی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کو توڑنے کیلئے بنایا گیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلیکٹ سٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد چترالی این ڈی ایم( نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام کو پاکستان اور بالخصوص قبائلی اضلاع کے عوام کے لئے سودمند سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹرجمیل نے ٹی این این کو بتایا کہ جمہوری نظام کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ ہر شہری اپنے نظرئے اور اسکے پرچار کیلئے سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں، انکے مطابق تاریخی طور پر ساتوں قبائلی اضلاع میں گزشتہ 70 سالوں سے ایک سیاسی خلاء موجود ہے۔
پروفیسرجمیل تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سابق ادوار میں قبائلی اضلاع کی عوام کا سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتنا تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ افغان جنگ یا سابق آمر ضیاء الحق کے دور میں جماعت اسلامی کو اثر رسوخ دیا گیا تھا جبکہ بعد میں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جمعیت علمائے اسلام کو اختیار دیا گیا اور اسی طرح باجور اور مہمند میں عوامی نیشنل پارٹی اثررسوخ رکھتی تھی۔
جمیل چترالی کے مطابق "قبائلی اضلاع کے عوام کی سیاسی شعور اجاگر کرنے میں بنیادی طور پر پشتون تحفظ موومنٹ کا کلیدی کردار ہے، یہ اسطرح ہے کہ بچہ اُٹھ کے ایک پہلوان کے ساتھ مقابلہ کرے، انہوں نے عدم تشدد کی بنیاد پر سیاست کی اور اسی کی بنیاد پر یہی پارٹی آگے بڑھے گی”۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صنفی مساوات کی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر درویش آفریدی کا خیال ہے کہ پشتونوں کی سرزمین پر نئی بننے والے پارٹیوں سے پشتون مزید تقسیم ہونگے، کہتے ہیں کہ سب کو پشتونوں کی حقوق کیلئے ایک نقطے پر اکھٹا ہونا وقت کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر درویش آفریدی نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ اس سے پہلے بھی کئی سیاسی شخصیات اپنی جماعتوں سے ناراض ہوکر نئی سیاسی جماعتیں تشکیل دی تھی مگر پھر واپس اپنی پارٹیوں میں آگئے۔
ڈاکٹر درویش کہتے ہیں "وہ نہیں سمجھتے کہ این ڈی ایم پرانی پارٹیوں کیلئے کوئی خطرہ بن جائے گا، یہ قومی سیاست کو مزید تقسیم کرے گا اور اب پشتونوں کو ضرورت ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے اپنی سیاست شروع کرے اور ایک ہی نقطے سے سیاست کا آغاز کرے”۔