ٹی ٹی پی کا معاملہ پاکستان کا اپنا ہے۔ افغان طالبان
وسیم سجاد
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف بھی استعمال نہیں ہو گی، (کالعدم) ٹی ٹی پی کا معاملہ پاکستان کا اپنا ہے، افغان طالبان کا ان کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔
نجی ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان میں سب کیلئے عام معافی کا اعلان کیا ہے، میڈیا کو اصولی شرائط پر کام کرنے کی آزادی ہو گی جبکہ خواتیں بھی آزادانہ طور پر کام کر سکیں گی البتہ موسیقی اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔
موسیقی پر پابندی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی حکومت قائم کریں اور ہم انہی چیزوں کی اجازت دیں گے جو اسلام میں جائز ہوں۔
افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کی تاخیر بارے ترجمان افغان طالبان نے بتایا کہ اس حوالے سے مشران کے درمیان بات چیت جاری ہے، ”کابل ہمارے ہاتھ بہت جلدی لگا جس کی توقع نہیں تھی، اب وہ مزید جلدبازی نہیں کرنا چاہتے بلکہ مضبوط حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، حکومت بنانے کے لئے سب کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں، حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کی آراء کو بھی سن رہے ہیں اور اہمیت دیتے ہیں البتہ ان کی بات حتمی نہیں ہے اور بعد میں فیصلہ کیا جائے گا کہ حکومت کس طرح بنائے جائے گی۔”
دورانِ گفتگو ذبیح اللہ مجاہد نے بار بار اس امر پر زور دیا کہ ملک میں امن چاہئے، وہ نہیں چاہتے کہ پنجشیر میں جنگ ہو، ”ہم نے بڑوں اور علما کا جرگہ بھیجا ہے اور امید ہے کہ وہ کامیاب ہو گا اور اگر جنگ کی ضرورت پیش آئی تو بھی جنگ بڑے پیمانے پر نہیں ہو گی کیونکہ پنجشیر کے آس پاس سب علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے، امر اللہ صالح کو بھی معافی مل سکتی ہے اگر وہ جنگ نہ کرے اور جنگ سے پہلے اپنے ہتھیار ڈال دے، اسی طرح اشرف غنی بھی اگر واپس افغانستان آنا چاہتے ہیں تو آ سکتے ہیں۔”
ملا برادر اور سی آئی اے کے سربراہ کی مبینہ ملاقات سے لاعلم افغان طالبان کے ترجمان کا افغانستان سے لوگوں کے بھاگنے اور افغانیوں کے دلوں میں طالبان کے ڈر سے متعلق کہنا تھا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب ہم کابل میں داخل ہوئے تو بار بار اطمینان دلایا کہ یہ تمہارا ملک ہے لیکن امریکہ کے اعلان نے مسئلہ پیدا کیا، بچوں اور عورتوں کے ساتھ کسی کا کچھ کام بھی نہیں ہے لیکن پسماندہ ممالک کے لوگ چاہتے ہیں کہ یورپ یا امریکہ چلے جائیں جس کی وجہ سے یہ معاملہ پیش آیا۔
اس سوال کے جواب میں کہ ”امنیت” تو اب طالبان کے ہاتھ میں ہے تو دھماکے کیسے ہوئے، ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ جہاں پر دھماکے ہوئے وہاں پر سیکیورٹی کا معاملہ امریکی فوج کے ہاتھوں میں تھا اور طالبان کے علاقے میں پورا امن تھا۔
انہوں نے واقعے پر غم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں البتہ امریکہ مزید حملوں کی اجازت نہیں دیں گے۔
داعش کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ وہ اب افغانستان کی سرزمیں پر موجود نہیں کیونکہ ان کو بہت سارے مسائل درپیش تھے، ”ہمارے اور داعش کے درمیان ماضی میں لڑائیاں ہوئیں، اور اگر ہو بھی (داعش افغانستان میں) تو اسلامی نظام یہاں پر قائم ہو جانے کہ بعد ہم چاہیں گے کہ سب امن کے ساتھ یہاں پر آرام کے ساتھ رہیں، اب تک کوئی بھی ایسی معلومات موجود نہیں ہیں کہ ایمن الظواہری افغانستان میں موجود ہیں۔”
.
میڈیا کی آزدی پر انہوں نے کہا کہ اصل میں آزادی تو ہے لیکن اصولوں کی بنیاد پر کام کریں، ”ہم اس لئے کچھ مقامات پر میڈکا کو اجازت نہیں دے رہے کہ وہاں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں جیسے کہ ائیرپورٹ یا دوسرے ایسے علاقے۔”