بلاگزخیبر پختونخوا

روشنیوں کے شہر میں پشتونوں کے ”سیاہ” دن

شمائلہ آفریدی

پشتون دنیا کی وہ قوم ہے جس کی متبادل دنیا میں کوئی دوسری قوم نہیں ہے۔ پشتون وہ قوم ہے جو تاریخ میں ایک منفرد پہچان اور تمدن رکھتی ہے۔ پشتون قوم کی تعریف یہ ہے کہ یہ قوم وفادار، دیانتدار اور مہمان نوازی کے زیور سے مزین ہے۔ اس قوم میں شجاعت و بہادری، عزت اور خودداری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ پشتون وہ قوم ہے جس نے اپنی سخت محنت اور مشقت سے کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک مثال قائم کی ہے۔

پشتون کا بچہ جب صبح گھر سے کام یا مزدوری کرنے کی غرض سے نکلتا ہے تو وہ 18، 18 گھنٹے بھی کام کرنے سے دریغ نہیں کرتا، یہ وہ قوم ہے جس کے بچے کام زیادہ کرتے ہیں جبکہ اجرت کم ہوتی ہے۔ پاکستان کے شہروں، اداروں دفاتروں میں بھی دیکھا جائے تو وہاں پشتون بچہ نوجوان بوڑھا معمولی سے عہدے پر فائز ہو گا، یا تو وہ مالی ہو گا یا پھر کچھرا صاف کرے گا اور یا زیادہ سے زیادہ کلرک ہو گا جبکہ اس کے مدمقابل دیگر اقوام کے لوگ اعلی عہدوں پر فائز ہوں گے اور ایئرکنڈیشن کے نیچے آرام سے کام کرتے دکھائی دیں گے۔

دنیا میں پشتون قوم کے پیچھے رہ جانے کے اسباب میں اعلی تعلیم سے محرومی بتائی جاتی ہے لیکن کون سے والدین کی یہ خواہش نہیں ہو گی کہ ان کا بچہ پڑھا لکھا ہو اور اعلی عہدے پر فائز ہو پر بدقسمتی سے اب بھی پشتون قوم کے بچوں میں اعلی تعلیم کی شرح کم ہے جس کی وجہ سے یہ قوم ترقی کے دوڑ میں پیچھے ہے۔ اس عظیم قوم کے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کے ہمارے قوم کے لیڈران ذمہ دار ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے لیڈران کی ملک میں سیاسی نمائندگی نہیں رہی ہے، سیاسی نمائندگی ہونے کے باوجود قوم کے بچوں کا مستقبل سنوارنے میں ان کی کارکردگی ہمیشہ سے ناقص ہی رہی ہے، لیڈران ہمیشہ قومی مفاد پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔

میں کراچی میں بیس سال سے رہائش پذیر ہوں، جب سے مجھے اچھے اور برے کا شعور آیا ہے میں یہ شدت سے محسوس کرتی ہوں کہ شہر کراچی میں پشتون اکثریتی علاقے اور ان علاقوں میں رہائش پذیر پشتون دوسری کمیونٹی کے لوگوں کے مدمقابل بنیادی سہولیات سے ہمیشہ محروم رہے ہیں۔ جب میں اپنی والدہ کے ساتھ کہیں جاتی ہوں تو میرا جب ان علاقوں سے گزر ہوتا ہے جہاں پشتون فیملیز رہائش پذیر ہیں تو دیکھتی ہوں وہاں کے علاقے دوسرے علاقوں سے انتہائی پسماندہ ہوتے ہیں، تو میں اکثر اپنی والدہ سے سوال کرتی ہوں کہ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟  ہمیں وہ تمام سہولیات کیوں میسر نہیں ہیں جو دوسروں کو میسر ہیں؟ تو میری والدہ مجھے جواب دیتی ہیں کہ یہاں کے پشتونوں کو کم حیثیت دی جاتی ہے، یہاں پر پچتون سیاسی لیڈران کی نمائندگی کے باوجود صحیح معنوں میں ان کی نمائندگی  کرنے والا کوئی نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے علاقے سہولیات سے محروم ہیں۔

ایک دفعہ میں اپنی والدہ کے ساتھ کہیں جا رہی تھی تو وہاں علاقے میں تمام پشتون کثیر تعداد میں اونچی عمارتوں میں رہائش پذیر تھے، میں نے والدہ سے سوال کیا کہ کراچی میں تو پشتون پسماندہ لوگ ہیں جن کا کوئی خاص کاروبار نہیں تو پھر انہوں نے یہ اونچی عمارتیں کیسے بنوائی ہیں؟ یہ سوال میں پوچھ ہی رہی تھی کہ ایک پشتون بچہ سامنے سے آ رہا تھا، والدہ نے مجھ سے کہا کہ سامنے دیکھو، یہ بچہ پسینے میں شرابور تھا جس کے ہاتھ میں ایک بوری تھی اور وہ کچرے سے کباڑ بوری میں ڈال رہا تھا۔ والدہ نے کہا کہ یہ بچہ پشتون ہے  اور یہ بچہ آخری عمر تک محنت اور مشقت کرے گا، یہی بچہ ایک دن اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اپنے لئے ایسی ہی عمارت بنوائے گا، یہ عمارتیں ان پشتونوں کی ہیں جنہوں ایسے ہی پوری زندگی سخت محنت و مشقت کی ہے، ان کو پوری زندگی پسینہ بہانا پڑا ہے، وہ لوگ کامیاب اور خوش نصیب ہوتے ہیں جو محنت مشقت سے حلال کما کر اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔

اکثر جب میں باہر کہیں جاتی ہوں تو  میں شدت سے محسوس کرتی ہوں کہ پشتون اکثریتی علاقوں کی حالت زار بہ نسبت دوسرے علاقوں کے انتہائی بری ہوتی ہے، علاقہ کیا پورا ایک مسائلستان ہوتا ہے۔ ایک ایسا شہر جسے روشنیوں کا شہر مانا جاتا ہے لیکن اس شہر میں پشتون اکثریتی علاقے ایک ایسا منظر پیش کرتے ہیں جیسے یہاں کے لوگ ویران کھنڈروں میں رہتے ہوں۔ ان کے گھروں میں دور جدید میں ایک تندور تو ضرور بنا ہوا ہوتا ہے لیکن زندگی کی دوسری بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ  اکثر گیس کی سپلائی سے بھی محروم رہتے ہیں۔

کراچی میں ایسی پشتون خواتین بھی ہیں جو ہنر کے زیور سے آراستہ ہیں۔ یہ خواتین اپنے ہنر میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ خواتین اپنے گھر کا خرچہ چلانے کیلئے محنت مشقت سے  سلائی کڑھائی کے علاوہ دوپٹوں اور قمیضوں پر سخت مشقت سے نگ لگاتی ہیں۔ ہماری خواتین مردوں کی طرح اتنی خوددار  ہوتی ہیں کہ دوسروں سے مانگنے کی بجائے گھر پر ہی اپنے ہنر کے زریعے گھر کے اخراجات پورا کرنے میں اپنے شوہروں کا ساتھ دیتی ہیں لیکن انہیں انتہائی کم معاوضہ ملتا ہے۔

روشنیوں کے شہر میں پشتون قوم کو سخت مشکلات درپیش ہیں جن میں پانی گیس صحت ناقص صفائی کا نظام وغیرہ شامل ہیں۔

کراچی میں اعلی طبقے کے پشتون بھی آباد ہیں جو قوم کی بھلائی کیلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اعلی طبقے سے تعلق رکھنے والے پشتون اگر اکٹھے ہوں اور لاچار پشتونوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کیلئے مل جل کر کام کریں، ان کیلئے مثبت سوچ پیدا کریں، ایسی تنظیمیں، ادارے قائم کریں جو ان فیملیز کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کریں جو ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس طرح علاقے کو درپیش دیگر مسائل کے حل کیلئے بھی مل جل کر عملی اقدامات کئے جائیں تو مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔ ایسے  ادارے بہت سے پشتون فیملیز کو ناامیدی کی زندگی سے نکال سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہم بھی حکمرانوں کی طرح صرف اپنے مفاد کیلئے ہی سوچتے ہیں، کھاتے ہیں اور سو جاتے ہیں، دوسرے مریں، جئیں، ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اگر ہم اجتماعی طور پر ان نادار لوگوں پر خرچ کریں تو ہم بھی دوسری قوموں کی طرح ترقی کر سکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button