بلاگزخیبر پختونخواعوام کی آواز

‘اساتذہ سکولوں میں حاضری تک نہیں لیتے یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے’

 

سلمیٰ جہانگیر

کچھ دن پہلے ایک تحریر پر نظر پڑی جس میں اساتذہ اور موجودہ نظام تعلیم کے حوالے سے بات کی گئی تھی اور اگر میں یہ کہوں کہ مثبت پہلو کو نظر انداز کر کے کچھ منفی پراپیگنڈو پر بحث ہوئی تھی تو غلط نہ ہوگا جسے پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ معاشرے کے اس طبقے کو طنز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو سب سے زیادہ عزت کا حقدار ہے.
یہ استاد ہی ہے جو بغیر کسی لالچ کےاور دل سے قوم کے معماروں کی کامیابی کے لئے محنت کرتا ہے اور علم کے سمندر کو انکے دماغوں میں انڈھیلتا ہے. یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بچے کوکلمہ سب سے پہلے استاد ہی سکھاتا ہے جو اسلام کا پہلا رکن ہے.
اب اس تحریر کی طرف آتی ہوں جس میں اساتذہ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ آجکل سکولوں میں اساتذہ بچوں کو توجہ نہیں دیتے اور یہاں تک کہا گیا ہےکہ بچوں کی حاضری بھی نہیں لیتے. یہ الزام سراسر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ جیسا کہ سب کو معلوم ہے حکومت کی طرف سے IMU(انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ) جسے اب EMA کہا جاتا ہے کو منتخب کیا گیا ہے جو ہر مہینے سکولوں کا دورہ کرتی ہے اور سکول سے متعلق ہر قسم کی معلومات اکٹھا کرتی ہے جس میں بچوں کی روزانہ کی حاضری سرفہرست ہے اگر کسی سکول میں ایک دن کی حاضری بھی مکمل نا ہو تو اس سکول کے سربراہ سے پوچھا جاتا ہے جو اسکا جواب دہ ہوتا ہے اور غفلت برتنے والوں کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سکول میں بچے موجود ہوں اور انکی حاضری نہ لگائی جاۓ؟

یہ بھی پڑھیں: ‘ہم دو تین گھنٹوں کے لیے ہی سکول جاتے ہیں لیکن استانیاں ہمیں کچھ نہیں پڑھاتیں’

دوسری بات یہ کہ بچے سکول جاتے ہیں اور اساتذہ انکو 10 بجے فارغ کر کے بھیجتے ہیں تو یہ بات سب کے علم میں ہے کہ کورونا صورت حال کے پیش نظر یہ حکومتی فیصلہ ہے جس پر عمل درآمد کرنا ہر تعلیمی ادارے کی ذمہ داری ہے اس میں استاد کا کوئی عمل دخل نہیں.
اب ایک اور اہم مسئلہ کی طرف آتی ہوں جو سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے حوالے سے ہے اور وہ یہ ہے کہ کچھ دن پہلے ایک نجی ٹی وی چینل پر دیکھا کہ خیبر پختونخوا کے تقریباً 60 فیصد اساتذہ کو تمام سبجیکٹ پر عبور نہیں ہے
اگر میں یہ کہوں کہ کیا ایک heart surgen ایک Ophthalmologists کا کام کر سکتا ہے؟ اسی طرح دوسرے شعبوں کی بھی مثالیں موجود ہیں.
لیکن ایک استاد یہ کام کرتا ہے اور بچے کو تمام مضامین پڑھا سکتا ہے اور پڑھاتا ہے یہاں پرائمری اساتذہ کی مثال موجود ہے. پچھلے کئی سالوں سے اساتذہ کے لیے پروفیشنل ڈیویلپمنٹ ڈے (PDD)کے نام سے ٹریننگ کا آغاز کیا گیا ہے جو اساتذہ کو تمام مضامین میں تربیت دیتی ہے.
اس حوالے سے ( DPD) ڈاریکٹریٹ آف پروفیشنل ڈیویلپمنٹ کے انسٹرکٹر واجد علی نے ٹی این این کو بتایا کہ سب سے پہلے یہ پروگرام ایک غیر سرکاری تنظیم GIZ نے شروع کیا تھا جو کہ 2010 سے 2015 تک صرف تین ضلعوں پشاور,مردان اور سوات میں کروایا گیا اسکے بعد 2015 میں خیبر پختونخوا ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن نے اس پروگرام کو 6 اضلاع میں نافذ کیا 2017 اور18 میں 8 اضلاع اور 2 ایف آر علاقوں اور 2018,19 میں 8 اضلاع اور 2 ایف آر علاقوں , 2019اور 20 میں تمام خیبر پختونخوا اور 2ایف آر اور 2020,21 میں پورے خیبر پختونخوا اور 3 نئی ضم شدہ اضلاع تک بڑھا یا گیا ہے جس میں خیبر، کرم اور اورکزئی شامل ہیں۔
واجد علی نے مزید بتایا کہ اس ٹریننگ کے دوران تقریباً ایک لاکھ پرائمری اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے۔ اس تربیتی پروگرام کے تحت DPD مختلف سکولوں سے اساتذہ کا انتخاب کرتی ہے اور انکو 3 دن کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر وہی فیسیلیٹیٹرز پرائمری اساتذہ کو تربیت دیتے ہیں اور انکو نئے نصاب کے متعلق ٹریننگ دی جاتی ہے.”
میں بذات خود اس ٹریننگ میں بطور فیسیلیٹیٹر کے فرائض سرانجام دے رہی ہوں اور اس تربیتی ورکشاپ میں, میرا واسطہ ایسے اساتذہ سے ہے جنکو ہر مضمون پر عبور حاصل ہے اور ان سے میں اور مجھ سے وہ بہت کچھ سیکھتے ہیں.
میرا مقصد بس صرف یہ بتانا ہے کہ جو منفی باتیں اساتذہ کے متعلق مشہور ہیں وہ بے بنیاد ہیں یہ اساتذہ ہی ہے جو معاشرے کے تمام شعبوں کی تعمیر میں سب سے آگے ہے چاہے وہ ڈاکٹر ہو انجینئر ہو یا کوئی اور شعبہ.

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button