افغانستان: سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ
طالبان کی جانب سے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد عالمی سطح پر افغانستان کی موجودہ صورت حال پر غور کے لیے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی کوششیں تیز ہو گئیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق روس، ایسٹونیا اور ناروے نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی درخواست کی تاکہ افغانستان کی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
روسی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ان کا ملک دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی کوششیں شروع کی ہیں۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دوسری طرف تحریک طالبان کے جنگجو دارالحکومت کابل میں داخل ہو چکے جبکہ صدر اشرف غنی نائب صدر سمیت ملک چھوڑ گئے۔
یہ بھی پڑھیں:
افغانستان: علی احمد جلالی کون ہیں؟
طورخم بارڈر کھلا ہے۔ کسٹم حکام
طالبان حکومت: افغان خواتین کے خدشات
کابل ایئر پورٹ پر رش، مبینہ فائرنگ سے کم از کم 5 افراد ہلاک
روسی عہدیدار زمیر زابا لوف کا کہنا تھا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں، جلد ہی سلامتی کونسل کی ایک میٹنگ منعقد کی جائے گی۔
خیال رہے کہ کابل پر قبضے اور افغانستان کے بیشتر حصے پر عملداری قائم کرنے کے بعد طالبان نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
طالبان سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے خلیجی خبر رساں ادارے الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ افغانستان میں جنگ ختم ہو گئی، اب ملک میں نئے نظام حکومت کی شکل جلد واضح ہو جائے گی۔
طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ برطانوی وزیراعظم
دوسری جانب برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کو طالبان کو بطور افغان حکومت تسلیم نہیں کرنا چاہیے، جب کہ یہ بات واضح ہے کہ بہت جلد افغانستان میں نئی انتظامیہ وجود میں آنے والی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بھی ملک اپنے طور پر طالبان کو تسلیم کرے۔
اس ضمن میں برطانوی وزیر اعظم نے مغربی ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام اقوام متحدہ یا نیٹو جیسے کسی ادارے کے طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنایا جائے، ”ہم چاہتے ہیں کہ ایک جیسی سوچ رکھنے والے ممالک اس معاملے پر ایک جیسا موقف اختیار کریں، تاکہ ہم افغانستان کو خونریزی اور دہشت گردی کی آماجگاہ بننے سے روک سکیں۔”
جانسن نے کہا کہ برطانوی سفیر ایئرپورٹ پر موجود ہیں، جہاں وہ مستعدی کے ساتھ ویزا درخواستوں کے عمل کو نمٹا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ برطانوی سفارت خانے کا زیادہ تر عملہ پہلے ہی ملک واپس آ چکا ہے۔
کابینہ کے اجلاس کے دوران جانسن نے کہا کہ اس وقت برطانیہ کی اولین ترجیح یہ ہے کہ اپنے شہریوں کے انخلا کو یقینی بنایا جائے، ساتھ ہی ان افغان باشندوں کو ویزا جاری کیا جائے جنہوں نے دو عشروں تک ہماری افواج کا ساتھ دیا تھا اور یہ کام آئندہ چند دنوں کے اندر جتنا جلد ہو سکے، کیا جائے۔